منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

مسلسل سفر ميں رہنے والے ڈرائيور كا روزہ

سوال

ميں آئل ٹينكر ڈرائيور ہوں، رمضان المبارك كا مہينہ آيا تو ميں روزہ ركھ كر گاڑى چلاتا ليكن ميرے ساتھ دوسرے آئل ٹينكر ڈرائيور روزہ نہ ركھتے اور مجھے كہتے كہ سفر ميں روزہ نہ ركھنے والے كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے نہ كہ جو سفر ميں روزہ ركھے اسے, اس ليے برائے مہربانى ميرى راہنمائى فرمائيں كہ آيا سفر ميں روزہ ركھنا باعث اجروثواب ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" بلاشك و شبہ سفر ميں روزہ نہ ركھنا اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے رخصت اور مشروع ہے.

بلكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى تم ميں سے مريض ہو يا مسافر تو دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 184 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے سفر ميں روزہ چھوڑتے بھى تھے اور ركھ بھى ليتے تھے، اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ بھى روزہ ركھتے اور نہ ركھتے، اس ليے جو سفر ميں روزہ نہ ركھے اس پر بھى كوئى حرج نہيں، اور جو ركھ لے اس پر بھى كوئى حرج نہيں.

چنانچہ سفر ميں روزہ نہ ركھنا اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے مسافروں كے ليے رخصت ہے، چاہے وہ مسافر گاڑى والا ہو يا پھر اونٹ يا كشتى يا ہوائى جہاز كا مسافر ہو سب برابر ہيں اس ميں كوئى فرق نہيں، مسافر كے ليے رمضان المبارك ميں روزہ چھوڑنا جائز ہے.

اور اگر مسافر روزہ ركھ لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے، ليكن اگر اس كے ليے سفر ميں روزہ مشقت كا باعث بن رہا ہو تو اس كے ليے روزہ افطار كرنا ہى افضل ہے، مثلا اگر شديد گرمى ہو تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا افضل ہوگا، اور اس حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى رخصت پر عمل كرنا يقينى ہو جائيگا.

حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى پسند فرماتا ہے كہ اس كى رخصت پر اسى طرح عمل كيا جائے جس طرح يہ پسند كرتا ہے كہ اس كى نافرمانى نہ كى جائے "

اس ليے اگر شديد گرمى ہو تو پھر روزہ نہ ركھنا سنت ہے، ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ديكھا كہ ايك شخص كو سايہ كيا جا رہا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بارہ ميں دريافت فرمايا تو لوگوں نے عرض كيا:

يہ شخص روزے سے ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سفر ميں روزہ ركھنا نيكى نہيں ہے "

يعنى اس شخص كے حق ميں نيكى نہيں ہوگى جس پر روزہ مشقت ہو، ليكن اگر كسى شخص كو سفر ميں روزہ ركھنا كوئى مشقت نہيں ديتا اور نہ ہى نقصاندہ ہے تو پھر ايسے شخص كو اختيار ہے چاہے وہ روزہ ركھ لے يا پھر افطار كرے.

ليكن ان ڈرائيوروں كے ليے جو اپنى زندگى سفر ميں ہى بسر كرتے ہيں ان كے ليے صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئى حرج نہيں چاہے سفر ان كا پيشہ ہى كيوں نہ ہو اس كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہے، ہميشہ ٹيكسى يا گاڑى كا ڈرائيور يا اونٹ بردار اپنے سفر كى حالت ميں ايك علاقے سے دوسرے علاقے ميں جاتے ہوئے روزہ افطار كرنے كا حق ركھتا ہے، چاہے اس كا پيشہ ہى يہى ہو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

ماخذ: فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب