الحمد للہ.
اول:
کمرشل بینکوں میں رائج منافع حاصل کرنے کا نظام سودی اور حرام ہے، یہاں قرض کا لین دین سودی بنیادوں پر ہے، چنانچہ بینک اپنے صارفین کو سود کے عوض قرضہ دیتا ہے اور جن اکاؤنٹ ہولڈرز کی جانب سے بینکوں میں رقوم جمع کی جاتی ہیں بینک ان رقوم کو بھی سود کے عوض قرضے میں آگے دیتا ہے، اور سود کے بدلے میں قرضہ دینے کے حرام ہونے پر سب کا اجماع ہے، مزید کیلیے سوال نمبر: (110112 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
جبکہ اسلامی بینکوں میں خرید و فروخت ، مضاربت، شراکت وغیرہ کی سرمایہ کاری کیلیے جائز صورتوں کو اپنایا جاتا ہے، اسی طرح ان بینکوں میں رقوم کی منتقلی پر فیس وصول کی جاتی ہے، اور اسی طرح غیر ملکی زرِ مبادلہ کے لین دین سے بھی منافع حاصل کرتے ہیں۔
ذیل میں ہم بالکل سادہ سی ایک مثال دیتے ہیں جس سے سودی لین دین اور شرعی لین دین میں فرق کرنا آسان ہو جائے گا، اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ہر دو طریقوں میں بینک کو کس طرح سے منافع ہوتا ہے، مثلاً: اگر کوئی صارف اپنی رقم سے منافع کمانا چاہے اور اپنی رقوم سودی بچت بینک میں جمع کروا دے، تو بینک اس کیلیے منافع مقرر کر دیتا ہے، ساتھ میں رأس المال کے محفوظ رہنے کی ضمانت بھی دیتا ہے، یہ صورت حقیقت میں سودی قرض ہے، اس صورت میں صارف بینک کو قرضہ فراہم کرتا ہے، اور بینک کو فائدہ اس طرح ہوتا ہے کہ بینک جمع شدہ رقوم کو دیگر صارفین کو منافع کے عوض بطور قرضہ فراہم کرتا ہے ، اس طرح سودی بینک قرضہ لیتا بھی ہے اور دیتا بھی ہے، لیکن لینے دینے میں جو شرح منافع میں فرق پایا جاتا ہے اس سے بینک کو فائدہ ہوتا ہے۔
جبکہ اسلامی بینک میں سرمایہ کاری کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ اسلامی بینک صارف سے رقم کسی ایسے کام میں مضاربت کیلیے لیتا ہے جو شرعی طور پر جائز ہو یا کسی رہائشی منصوبے یا کسی اور جائز کام کیلیے لے لیتا ہے، جس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ بینک حاصل ہونے والے نفع میں سے معین فیصد صارف کو دےگا، جبکہ بینک کو بھی مضاربت میں محنت کے عوض معین فیصد میں نفع ملتا ہے، اس صورت میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی کی صورت میں حاصل ہونے والے نفع سے بینک کو فائدہ ہوتا ہے، اوربسا اوقات یہ فائدہ سودی بینک کو حرام کام سے حاصل ہونے والے فائدے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، تاہم یہ ہے کہ مضاربت میں نفع یا نقصان دونوں چیزوں کا احتمال اور خطرہ قائم رہتا ہے، جس کی وجہ سے منافع کو یقینی بنانے کیلیے کسی ایسے منصوبے پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے جس میں نفع کے امکانات زیادہ روشن ہوں اور پھر اسے کامیاب بنانے کیلیے محنت بھی کی جاتی ہے۔
تو اس مثال کے مطابق سودی اور اسلامی بینک میں وہی فرق ہے جو حرام سودی قرضوں اور شرعی مضاربت میں ہے کہ مضاربت میں نقصان کا خدشہ بھی ہوتا ہے، اس میں رأس المال یقینی طور پر محفوظ نہیں ہوتا، لیکن اگر اسے نفع ہو تو وہ حلال نفع ہوتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ: اسلامی بینک کے سامنے منافع حاصل کرنے کے متعدد راستے اور طریقے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ بینک مسلسل ترقی کر رہے ہیں، بلکہ اس وقت کچھ غیر مسلم ممالک نے بھی اسلامی بینکاری نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے؛ کیونکہ اس میں فائدہ ہے اور سودی نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہ کن خرابیوں سے بچا بھی جا سکتا ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (113852 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
سودی لین دین کی صورتیں بہت زیادہ ہیں، جن میں سے مشہور یہ ہیں:
سود کے عوض قرضہ لینا یا دینا، غیر ملکی کرنسی کا لین دین کرتے ہوئے دونوں کرنسیوں یا ایک کرنسی کو ادھار کر لینا، سونے کی سونے کے ساتھ خرید و فروخت کرتے ہوئے ادھار کرنا یا ہم وزن نہ لینا۔
اسی طرح کچھ امور ایسے ہیں جو کہ اصل میں سودی قرضہ ہی شمار ہوتے ہیں، مثلاً: [Bills of Exchange] کو اصل مالیت سے کم کر کے فروخت کرنا، بچت اکاؤنت، نفع یا انعام کے بدلے میں سرمایہ کاری سرٹیفکیٹ کا اجرا، قسطوں کے کاروبار یا کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی میں تاخیر پر لاگو ہونے والا جرمانہ وغیرہ، سودی امور میں شامل ہونے والی چیزوں کے بارے میں آپ ویب سائٹ پر مزید مطالعہ کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم.