اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ذبح کرنے کیلئے جانور کی کوئی خاص عمر ہے؟

129231

تاریخ اشاعت : 31-12-2015

مشاہدات : 13921

سوال

سوال: کیا ذبح کرنے کیلئے جانور کی کوئی خاص عمر کی قید ہے؟ کیونکہ یہاں ہندوستان میں کافی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کونسی عمر کا جانور ذبح کرنا جائز ہے، واضح رہے کہ یہاں ذبح کرنے کا مقصد یومیہ ضروریات پوری کرنے کیلئے گوشت کا حصول ہے، قربانی مقصود نہیں ہے، اس بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ : اس کیلئے مناسب عمر دو سال ہے، تو کیا یہ بات درست ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صرف گوشت حاصل کرنے کیلئے جانور ذبح کرنے  کی کوئی عمر کی قید نہیں ہے۔

چنانچہ اگر کسی نے اپنی ایک دن یا اس سے بھی کم عمر کی بکری ذبح کر دی تو اسے کھانا جائز ہے؛ کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو اس کی ممانعت کا باعث ہو، اور اللہ کی پیدا کردہ چیزوں میں اصل یہی ہے کہ  وہ ہمارے لیے حلال ہیں، چنانچہ جو شخص ان میں سے کسی چیز کو حرام کہتا ہے تو حرام ہونے کی دلیل پیش کریگا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا )
ترجمہ: اللہ تعالی ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز [حلال]پیدا کی ہے۔[البقرة:29]

نیز احادیث مبارکہ میں یہ ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "عناق" [ایک سال سے کم عمر بکری]  کا گوشت کھایا، چنانچہ صحیح بخاری: (4101)  اور صحیح مسلم: (2039) میں جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ : "یا رسول اللہ! مجھے گھر تک جانے دیں" 
میں نے گھر آ کر اپنی اہلیہ سے کہا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی [بھوک کی وجہ سے]ایسی حالت دیکھی ہے کہ مجھ سے صبر نہیں ہو سکا، تو کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟"
اہلیہ نے کہا: "میرے پاس یہ جو ہیں اور عناق ہے "
جابر کہتے ہیں :  میں نے ایک سال سے کم عمر بکری کو ذبح کیا اور اتنے میں بیوی نے جو کا آٹا گوندھ لیا، اور گوشت ہنڈیا میں ڈال کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔۔۔" اور مکمل واقعہ ذکر کیا، جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کیساتھ  مل کر اس بکری کا گوشت کھایا۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی معیت میں ابو ہیثم سے ملنے گئے تو  ابو ہیثم اٹھ کر کھانے کا انتظام کرنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دودھ والی مادہ ذبح مت کرنا، تو اس پر ابو ہیثم نے ایک سال سے کم عمر بکری یا بکرا ذبح کیا، اور کھانا تیار کر کے لائے، پھر سب نے مل کر اسے تناول کیا" مسلم: (2038) ترمذی: (2369) یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔

عربی لفظ: "عناق" کا مطلب ہے بکری کا ایک سال سے کم عمر بچہ۔ دیکھیں: کتاب : "النهاية" باب العین مع النون۔

بلکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے  بالکل صراحت کیساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ اگر گھریلو جانور کے پیٹ سے بچہ زندہ حالت میں پیدا ہو اور اسے ذبح کر دیا جائے تو وہ بھی حلال ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/321) میں کہتے ہیں:
"اگر جانور کا نو مولود بچہ زندہ  سلامت  پیدا ہو اور اسے ذبح کرنا ممکن ہو لیکن پھر بھی ذبح نہ کیا جائے اور ایسے ہی مر جائے تو یہ بچہ حلال نہیں ہوگا، امام احمد کہتے ہیں: اگر زندہ سلامت باہر آئے تو لازمی طور پر اسے بھی ذبح ہی کرنا ہوگا؛ کیونکہ یہ الگ جان ہے"

ابن نجیم رحمہ اللہ "البحر الرائق" (8/198) میں کہتے ہیں:
"اگر ذبح کرتے وقت اگر بکری زندہ ہو ، تو ذبح کرنے سے حلال ہو جائے گی چاہے بکری حرکت کرے یا نہ کرے" انتہی
اسی طرح "البحر الرائق" (8/195) بھی پڑھیں۔

جب یہ بات عیاں ہو گئی کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے ان چیزوں کو بغیر کسی عمر کی قید کے حلال قرار دیا ہے تو  اس بارے میں کسی بھی قسم کی شرط یا قید دین میں اضافہ ، اور شریعت کے مقابلے میں شریعت سازی متصور ہوگی۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ( وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ )
ترجمہ: جو جھوٹ تمہاری زبانوں پر آ جائے اس کی بنا پر یوں نہ کہا کرو کہ "یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے" کہ تم اللہ پر جھوٹ و افترا باندھنے لگو ،  جو لوگ اللہ پر جھوٹ و افترا باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے [النحل:116]

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے!؟ وہ ایسی شرطیں لگانے لگے ہیں کہ جو کتاب اللہ  میں نہیں ہیں، کوئی بھی شرط جو کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ باطل ہے، چاہے سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کا فیصلہ اٹل ہے، اور اللہ کی لگائی ہوئی شرائط بر حق ہیں"
بخاری:  (2168)   مسلم: (1504)

تاہم اگر جانور کو ذبح کرنے کا مقصد قربانی وغیرہ ہو تو پھر مقررہ عمر تک پہنچنا لازمی ہے، اس بات کا تفصیلی بیان  سوال نمبر: (41899) کے جواب میں گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب