اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ساس بہو اور اس كے خاندان سے برا سلوك كرتى ہے

129319

تاریخ اشاعت : 13-03-2013

مشاہدات : 9884

سوال

ميرى والدہ ميرى بيوى كو بغير ناحق تنگ كرتى ہے حتى كہ بيوى كے خاندان والوں كو بھى برا كہتى ہے، اور بيوى اور اس كے خاندان والوں پر ناحق غلط قسم كے الزامات لگاتى رہتى ہے، اس كے نتيجہ ميرى بيوى اپنى ساس سے قطع تعلق كرنے لگى ہے.
يہ علم ميں رہے كہ ميں والدہ كو ملتا رہتا اور ٹيلى فون پر بھى ان كى خيريت دريافت كرتا رہتا ہوں، ميرى والدہ كو ميرى بيوى كى جانب سے قطع تعلقى كى توقع نہ تھى ليكن جب بيوى نے ايسا كيا تو والدہ اس كا الزام مجھ پر لگانے لگى كہ ميں نے ہى بيوى كو ايسا كرنے كى اجازت دى ہے، والدہ كہتى ہے كہ جب تك ميرى بيوى كے اس سے تعلقات صحيح نہيں ہوتے تو وہ مجھ سے قيامت تك راضى نہيں ہوگى، ميں بيوى پر سختى نہيں كرنا چاہتا بلكہ اسے اختيار ديا ہے كہ وہ رابطہ ركھے يا نہ ركھے، اب تو والدہ مجھے ناحق بد دعائيں دينے لگى ہيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ميرى بيوى كا اپنى ساس سے قطع تلقى كرنے ميں كوئى محروميت ہے يا پھر ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
دوسرا سوال يہ ہے كہ: كيا والدہ كو حق ہے كہ وہ مجھ پر راضى ہونے كے ليے اپنے ساتھ ميرى بيوى كے تعلقات بحال كرنے اور ملنے كى شرط ركھے، حالانكہ ميں نماز ميں والدہ كے ليے دعا مانگتا رہتا ہوں، اور والدہ كى جانب سے صدقہ بھى كرتا ہوں ؟
تيسرا سوال يہ ہے كہ: اگر ميرى بيوى قطع تعلقى پر مصر رہے تو كيا والدہ كى ناراضگى كا گناہ مجھ پر ہوگا يا نہيں ؟
برائے مہربانى معلومات فراہم كر كے عند اللہ ماجور ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارے عزيز بھائى اس طرح كى خاندانى مشكلات كى بنا پر ازدواجى زندگى پراگندہ ہو كر رہ جاتى ہے، اور ذہن مشغول ہر كر رہ جاتا ہے، ليكن عقلمندى اور حكمت كے ساتھ اس طرح كے مسائل كو حل كرنے اور عدل و انصاف پر عمل كرتے ہوئے ہر ايك كو كا اس كا حق دينے سے يہ مشكلات ختم ہو سكتى ہيں، اس ليے آپ والدہ كے عظيم حق كى ادائيگى پر صبر و تحمل سے كام ليں، اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرنے كے ساتھ ساتھ اپنے بچوں كى ماں يعنى اپنى بيوى سے بھى محبت و مودت اور الفت قائم ركھيں، اس سے بہتر سلوك اور اچھا معاملہ كرنے كى بنا پر يہ مشكل حل ہو سكتى ہے.

دوم:

اللہ تعالى ہمارى اور آپ كى اصلاح فرمائے ہر ايك ليے دوسرے كے حقوق كو معلوم كرنا اور جاننا ضرورى ہے، اس ليے قابل احترام ماں كو معلوم ہونا چاہيے كہ بہو كے بھى كچھ حقوق ہيں جو اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ نے مقرر فرمائے اور ان كى ادائيگى كى وصيت فرمائى ہے.

اسى طرح بہو كو بھى معلوم ہونا چاہيے كہ ماں كے بھى اپنى اولاد پر كچھ حقوق ہيں جو اللہ سبحانہ و تعالى نے فرض كيے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى تاكيد فرمائى ہے.

اس كے بعد دونوں كو معلوم ہونا چاہيے كہ جب اللہ تعالى نے ہر ايك كے كچھ حقوق مقرر كيے ہيں، اور ظلم و زيادتى كرنے سے منع فرمايا ہے، اور اللہ تعالى نے بندوں كے ليے جو حدود و قيود مقرر كى ہيں ان سے تجاوز كرنا منع كيا ہے، اس ليے ہر ايك شخص كو چاہيے كہ حدود سے تجاوز مت كرے، اور كسى دوسرے كے حقوق كى ادائيگى كے ليے كسى ايك كے حقوق پر بھى ظلم و زيادتى مت كرے.

سوم:

آپ اس سلسلہ ميں شريعت مطہرہ كا بيان كردہ عدل و انصاف والا معيار استعمال كريں كہ اس وقت تك كوئى شخص مومن ہى نہيں ہو سكتا جب تك وہ اپنے بھائى كے ليے وہى كچھ پسند نہ كرے جو اپنے ليے پسند كرتا ہے، حتى كہ جو اپنے ليے ناپسند كرتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائى كے ليے بھى ناپسند نہ كرنے لگے.

لہذا والدہ كو يہ سمجھائيں كہ: قابل احترام ماں كيا ہم ميں سے كوئى ايك بھى ( چاہے وہ كوئى بھى ہو ) كيا يہ پسند كرتا ہے كہ غلط قسم كى باتيں كر كے اس كے جذبات مجروح كيے جائيں ؟

كيا ہم سے كوئى يہ پسند كرتا ہے كہ اس كے ساتھ غير شائستہ اور غير لائق قسم كے تصرفات اور كام كيے جائيں ؟

كيا كوئى يہ پسند كرتا ہے كہ اس كے خاندان وغيرہ كے ساتھ برا سلوك كيا جائے اور ان كے بارہ ميں غلط باتيں كى جائيں ؟

اور بيوى سے بھى كہيں ميرى عزيز بيوى كيا آپ كو يہ پسند ہے كہ مجھ پر ميرى والدہ ہميشہ كے ليے ناراض ہو جائے اور ميرے ليے دعا كرنے كى بجائے بددعائيں كرنے لگے ؟

كيا آپ اپنے ليے ايسا عمل پسند كرتى ہيں ؟ چاہے ا سكا كوئى بھى سبب ہو ؟

آپ اس طرح كى كوئى تدبير كريں جس سے آپ دونوں كے دل ميں يہ ڈال سكيں كہ آپ كے ليے اس كا معاملہ زيادہ مہما ور اہميت ركھتا ہے، اور دونوں كى ناراضگى آپ كے ليے بہت دكھ كا باعث ہے.

ليكن اس سلسلہ ميں آپ غلط طريقہ اور برا سلوك كرنے والے كے مخالف مت ہوں ( خاص كر والدہ كے ) اور واضح طور پر اسے مت كہيں كہ تم ظلم و زيادتى كر رہى ہو، اور نہ ہى اسے ايسا باور كرائيں جس كى بنا پر حالات مزيد خراب ہو جائيں اور تعلقات ميں مزيد بگاڑ پيدا ہو.

ليكن آپ پورى حكمت كے ساتھ اور بہتر وعظ و نصيحت استعمال كرتے ہوئے اسے حل كرنے كى كوشش كريں.

آپ بيوى سے ايسى كلام كريں جو معافى و درگزر كى غماضى كرتى ہو اور اس كے كان ميں معاف و درگزر كا طريقہ ڈاليں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نيكى اور برائى برابر نہيں ہو سكتى، آپ برائى كو اچھائى كے ساتھ دور كريں تو وہى جو آپ كا دشمن تھا وہ دلى دوست ميں بدل جائيگا فصلت ( 34 ).

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" معافى و درگزر سے اللہ تعالى عزت ميں اور اضافہ فرماتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2588 ).

اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" بندے پر جو بھى ظلم ہو اور وہ اس پر صبر كرے تو اللہ تعالى اس كى عزت ميں اور اضافہ كرتا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2325 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

آپ اپنى بيوى كو بتائيں كہ معافى و در گزر اللہ تعالى كو بہت محبوب ہے، اور آپ ايسے شخص كو معاف كريں گى جو مجھے سب سے زيادہ عزيز اور محبوب ہے يعنى ميرى والدہ ہے اس سے آپ ميرے نزديك اور زيادہ عزت و تكريم كى باعث بن جائينگى.

چہارم:

آپ كى بيوى كے ليے اپنى ساس سے بائيكاٹ كرنا اور جھگڑنا جائز نہيں؛ كيونكہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اپنے دوسرے مسلمان بھائى سے تين دن سے زائد ناراض رہنا جائز و حلال نہيں ہے، سب كو اس كا علم بھى ہے اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى يہى ہے.

اور ايك صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى اپنے بھائى سے ايك برس تك قطع تعلقى كى يہ اس كے خون كرنے كے مترادف ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4915 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے كہ:

" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كسى دوسرے مسلمان سے تين راتوں سے زيادہ قطع تعلقى كرنا حلال نہيں، جب تك وہ دونوں ايك دوسرے سے ناراض ہيں تو وہ حق سے دور ہيں اور ان دونوں ميں سے جو پہلے اپنى نارضگى چھوڑ دے تو يہ اس كى ناراضگى كا كفارہ بن جائيگا، اور اگر وہ سلام كرے اور دوسرا قبول نہ كرے اور سلام كا جواب نہ دے تو فرشتے سلام كا جواب ديتے ہيں، اور دوسرے كو شيطان جواب ديتا ہے، اور اگر وہ دونوں اپنى ناراضگى پر ہى فوت ہو جائيں تو كبھى بھى جنت ميں داخل نہيں ہونگى "

مسند احمد حديث نمبر ( 15824 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1246 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر ساس اور بہو كو اكٹھا ركھنے ميں مستقل طور پر بيوى كے ليے اذيت كا باعث بنے اور بہو كے خاندان والوں كو طعن كرنے كا باعث بنتا ہے تو پھر ماں كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں ہے، اور اسى طرح آپ كا اس معاملہ ميں خاموشى اختيار كرنا بھى جائز نہيں، كيونكہ لوگوں كے حقوق كا احترام كرنا چاہيے، اور پھر جو كوئى شخص بھى كسى دوسرے مسلمان كو ناحق اذيت ديتا ہے كا قيامت كے روز اسے اس كا حساب دينا ہوگا.

وہ مفلس والى حديث سب كو معلوم ہے جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ مفلس شخص وہ ہو گا جو روز قيامت نماز روزے اور زكاۃ جيسے اعمال كے ساتھ آئيگا ليكن اس نے كسى شخص كا ناحق مال كھايا اور كسى كا ناحق خون بہايا ہوگا، اور كسى كو زدكوب كيا ہوگا تو مظلوم شخص كى اس كى نيكياں دى جائينگى، اور نيكياں ختم ہو جانے كى صورت ميں مظلومين كے گناہ ظالم شخص پر ڈال ديے جائيں گے، اور اس طرح وہ جہنم ميں ڈال ديا جائيگا.

چنانچہ والدہ كو اس عظيم خطرہ سے متنبہ رہنا چاہيے، اور ايسى ماں كو نرم اور لطيف الفاظ اور لہجہ ميں وعظ و نصيحت كے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كا خوف بھى دلايا جائے.

اس بنا پر اگر ساس اپنى بہو كے ساتھ يہى سلوك كرنے پر مصر ہو تو پھر ساس كو ايسا كرنے سے روكنے كے ليے بہو كو ساس كے گھر جانے اور اس سے ملنے سے روك دينا چاہيے اور اس صورت ميں بہو كے ليے اپنى ساس سے ميل ملاپ نہ كرنے اور اس كے پاس نہ جانا جائز ہوگا، كيونكہ دراصل بہو كے ليے ايسا كرنا واجب ہى نہيں، بلكہ واجب تو يہ ہے كہ بغير كسى شرعى سبب كے بائيكاٹ اور قطع تعلقى كرنے سے اجتناب كيا جائے.

اگر بالفرض ہم يہ كہيں كہ بيوى اس سے درگزر كرتے ہوئے معاف كر ديتى ہے، اور اپنے حق سے دستبردار ہو جاتى ہے تو پھر اس كے خاندان كے حق كيا كيا ہوگا ؟

اس كے خاندان والوں كا كيا قصور اور گناہ ہے كہ ان كى توہين و اہانت كى جائے اور ان كى غير موجودگى ميں انہيں برے الفاظ ميں ياد كيا جائے حالانكہ انہوں نے كسى جرم كا ارتكاب تك نہيں كيا ؟

ليكن اگر بالفرض ساس اور بہو دونوں كسى ايك جگہ اكٹھى ہو جائيں تو بہو كو اپنى ساس كو سلام كرنى چاہيے اور حال احوال دريافت كرنے چاہيں كيونكہ سلام ميں پہل كرنے والا شخص بہتر اور افضل ہے، اور جب ساس اپنى بہو سے بات كرے يا سلام كرے تو بہو كو جواب دينا چاہيے.

اس صورت ميں آپ كے ليے كوئى نقصاندہ نہيں كہ آپ والدہ كو بد دعا كى دھمكى ديں، اور آپ اسے ناراضگى كى دھمكى دے سكتے ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے اوپر ظلم حرام كيا ہے، اور اسى طرح لوگوں كا بھى ايك دوسرے پر ظلم كرنا حرام قرار ديا ہے، اور والدہ كو يہ بتا ديں كہ اللہ سبحانہ و تعالى ظالموں سے محبت نہيں كرتا، اور اللہ تعالى كو ظالم لوگ پسند نہيں.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم حق پر قائم رہو، اور اللہ كے ليے راستى اور انصاف كے ساتھ گواہى دينے والے بن جاؤ، اور تمہيں كسى قوم كى دشمنى ناانصافى پر مت ابھارے، بلكہ عدل و انصاف كرو يہى تقوى كے زيادہ قريب ہے المآئدۃ ( 8 ).

اس آيت كا معنى يہ ہے كہ: تم اپنے افعال اور اقوال ميں عدل و انصاف سے كام لو، اور ہر قريبى اور دور والے كے ساتھ عدل و انصاف كرو، چاہے وہ دوست ہو يا دشمن اس سے انصاف ضرور كرو.

كسى قوم سے دشمنى اور بغض تمہيں ظلم و زيادتى پر مت ابھارے كہ تم اس سے انصاف نہ كرو، بلكہ جيسے تم اپنے دوست كے حق ميں گواہى ديتے ہو، اسى طرح اس كے خلاف بھى گواہى دينے سے گريز مت كرو، بلكہ جس طرح تم اپنے دشمن كے خلاف گواہى ديتے ہو اس دوست كے خلاف بھى گواہى دو، چاہے وہ كافر ہو يا بدعتى كيونكہ عدل و انصاف كرنا واجب ہے.

ديكھيں: تفسير السعدى ( 224 ).

اور يہ بھى ہے كہ جس طرح كسى قوم كى دشمنى تمہيں عدل و انصاف ترك كرنے پر نہيں ابھارتى اسى طرح كسى دوسرے كى محبت بھى تمہيں اسے ترك كرنے پر مت ابھارے بلكہ تمہيں ہر حالت ميں عدل و انصاف كرنا چاہيے.

اگر آپ اپنى استطاعت كے مطابق اصلاح كرنے كى كوشش كرنے كے باوجود ان كى اصلاح سے عاجز ہوں تو پھر آپ پر كوئى گناہ نہيں، چاہے والدہ آپ كو بد دعا كرنے كى بھى دھمكى ديتى رہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى گناہ يا قطع رحمى كے ساتھ دعا قبول نہيں فرماتا.

ليكن پھر بھى والدہ كے ساتھ حسن سلوك مكمل كرنا ہو گا اور والدہ كى جانب سے دو ناپسنديدہ امور صادر ہوں اس پر صبر و تحمل سے كام ليں.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 82453 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

تنبيہ:

سائل كا يہ كہنا كہ:

" ميں نماز ميں ابھى تك والدہ كے ليے دعا مانگتا ہوں اور اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرتا ہوں"

دعا كرنا تو ايك اچھا اور بہتر كام ہے، جو والدہ كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے، ليكن والدہ كى زندگى ميں اس كى جانب سے صدقہ و خيرات كرنا سلف صالحين سے ثابت نہيں، بلكہ معروف تو يہى ہے كہ ميت كى جانب سے ہى صدقہ و خيرات كيا جاتا ہے جيسا كہ درج ذيل بخارى اور مسلم شريف كى حديث سے ثابت ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: ميرے والدہ اچانك فوت ہو گئى ہے ميرے خيال ميں اگر وہ بات كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، كيا ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں تم اس كى جانب سے صدقہ كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2760 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1004 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ ميت كى جانب سے كيا گيا صدقہ ميت كو فائدہ دےگا اور اسے اس كا ثواب ہوگا، اور يہ علماء كرام كا اجماع بھى ہے " انتہى

اس ليے والدہ كى خدمت كرنا، اور اس كى غير موجودگى ميں والدہ كے ليے دعا كرنا اور مالى اور دوسرى معاونت كر كے صلہ رحمى كرنا مشروع ہے ليكن زندگى ميں والدہ كى جانب سے صدقہ كرنا مشروع نہيں، كيونكہ ہمارے علم كے مطابق تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب