اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تغییر فی خلق اللہ کے متعلق ضابطہ

سوال

ہم یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تخلیق الہی میں تبدیلی کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ: تغییر فی خلق اللہ، یا تخلیق الہی میں تبدیلی کی کیا تعریف ہے؟ میں بہت پریشان ہوں ؛ کیونکہ میں جتنی بھی میک اپ کی چیزیں ہیں میں سب کو تخلیق الہی میں تبدیلی سمجھتی ہوں، پھر ابرو کے بال نوچنا تخلیق الہی میں تبدیلی کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ بال تو دوبارہ آ جائیں گے؟ تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں تبدیلی وقتی ہے دائمی نہیں ہے، تو میں یہ چاہتی ہوں کہ مجھے پتہ چلے کہ تخلیق الہی میں تبدیلی کسے کہتے ہیں؟ ہمارے ہاں کچھ رواج ہے کہ عورت کی جلد کو نرم اور ملائم رکھنے کے لیے کریمیں استعمال کرتے ہیں، تو کیا یہ چیزیں مباح ہوں گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نصوص شریعت میں تغییر فی خلق اللہ حرام ہے، ان نصوص میں یہ بھی ہے کہ یہ شیطان کے حکم کی تعمیل ہے جو کہ انسان کو گمراہ کرتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا . لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا . وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا
 ترجمہ: یقیناً وہ سر کش شیطان کو پکارتے ہیں، اللہ تعالی نے اس پر لعنت فرمائی ۔ اور اس نے کہا: میں تیرے بندوں سے مقرر کردہ حصہ لے کر رہوں گا۔ اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا، اور انہیں ضرور باطل امیدیں دلاؤں گا، پھر انہیں حکم دوں گا تو وہ جانوروں کے کان چیر دیں گے، میں انہیں پھر حکم دوں گا تو وہ اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی کر دیں گے۔ اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنا لے تو وہ واضح خسارے میں چلا گیا۔ [النساء: 117 - 119]

اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (اللہ تعالی نے ٹیٹو بنانے والیوں اور ٹیٹو بنوانے والیوں، ابرو کے بال نوچنے والیوں، اور اپنے دانتوں میں اضافہِ حسن کے لیے فاصلہ کروانے والیوں جو کہ تخلیق الہی میں تبدیلی کرنے والی ہیں ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔ یہ بات بنو اسد کی ایک خاتون ام یعقوب کو پہنچی تو وہ آئی اور کہنے لگی: مجھے آپ کی جانب سے پتہ چلا ہے کہ آپ فلاں ، فلاں پر لعنت کرتے ہیں؟ تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت کی ہے میں بھی اس پر لعنت کیوں نہ کروں؟) اس حدیث کو امام بخاری: (4886) اور مسلم : (2125) نے روایت کیا ہے۔

اسی روایت کو امام نسائی نے حدیث نمبر: (5253) کے تحت یوں ذکر کیا ہے: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت ہے ٹیٹو بنانے والیوں اور دانتوں میں فاصلہ ڈلوانے والیوں پر، اور ابرو کے بال نوچنے والیوں پر جو کہ تخلیق الہی میں تبدیلی کرنے والیاں ہیں۔) اس حدیث کو البانی نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ: متفلجات، متفلجہ کی جمع ہے جو کہ ایسی خواتین کو کہتے ہیں جو دانتوں میں فاصلہ خوبصورتی اور کم عمری ظاہر کرنے کے لیے ڈلواتی تھیں۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دانتوں میں فاصلہ ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ سامنے والے اگلے چاروں دانتوں کے درمیان فاصلہ کر دیا جائے، یہ کام بوڑھی خواتین یا بڑھاپے میں پہنچنے والی خواتین اس لیے کرتی تھیں کہ ان کی عمر مزید کم نظر آئے اور دانت خوبصورت بھی ہوں؛ کیونکہ سامنے والے دانتوں کے درمیان فاصلہ چھوٹی بچیوں کے دانتوں میں ہوتا ہے، پھر جب عورت بوڑھی ہو جاتی تو اپنے دانتوں کو ریتی سے گھسا لیتی تھی تا کہ خوبصورت نظر آنے لگے، یہ وہم ہو کہ اس کی عمر چھوٹی ہے، اس عمل کو عربی میں وشر بھی کہتے ہیں، اسی لیے بعض احادیث میں لَعْن الْوَاشِرَة وَالْمُسْتَوْشِرَة کے الفاظ بھی آتے ہیں، ان احادیث کی وجہ سے یہ کام؛ کرنے والیوں پر اور کروانے والیوں پر حرام ہے؛ کیونکہ یہ تغییر فی خلق اللہ ہے، اس میں حقیقت کو تبدیل کرنا بھی ہے اور اس میں دھوکا دہی بھی ہے۔

"حسن کے لیے فاصلہ کروانے والیاں" اس کا مطلب یہ ہے کہ: یہ کام تب حرام ہے جب من چاہا حسن حاصل کرنے کے لیے کیا جائے، لیکن اگر کسی علاج کی وجہ سے یا عیب کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے یہ کام کرنا پڑے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد

یہ تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مذکورہ ٹیٹو بنانا، ابرو نوچنا اور دانتوں میں فاصلہ پیدا کرنا اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور "اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرنے والیاں" کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیٹو بنانا، ابرو نوچنا اور دانتوں میں فاصلہ پیدا کرنا لازمی طور پر اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی لانا ہے۔ اسی طرح ایک اور روایت میں اصلی بالوں کے ساتھ نقلی بال لگوانا بھی اسی میں شامل ہے۔" ختم شد

اس حدیث میں ابرو نوچنے کو حرام قرار دیا ہے اور نوچنے والی پر لعنت فرمائی ہے، اس لیے اس حدیث کی تعمیل ضروری ہے چاہے اسے حرمت کی وجہ کا علم ہو یا نہ ہو۔

حرمت کی اس علت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:

چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان تمام احادیث میں یہ کام کرنے والوں پر لعنت ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعمال کبیرہ گناہوں میں شامل ہیں۔ یہ ممانعت کس وجہ سے ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں: چنانچہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ دھوکا دہی میں آتا ہے۔ جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ یہ تخلیق الہی میں تبدیلی ہے ، یہ قول ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہی صحیح ترین موقف ہے۔ اس موقف میں پہلا موقف بھی شامل ہو جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ایسی تغییر کے متعلق ہے جو دائمی ہو، چنانچہ جو عارضی اور وقتی تبدیلی ہو جیسے کہ سرمہ ڈالنا اور عورتوں کے لیے سرمہ ڈال کر خوبصورت لگنا تو اس کی علمائے کرام نے اجازت دی ہے۔" ختم شد
" تفسیر القرطبی " (5/393)

قرطبی رحمہ اللہ کی گفتگو میں تغییر فی خلق اللہ کے ایک ضابطے کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایسی تبدیلی ہے جو دائمی ہو اور باقی رہے، تو یہ اچھا ضابطہ ہے، اس کے ذریعے حدیث میں حرام قرار دیے گئے افعال اور مہندی لگانے و سرمہ ڈالنے جیسے مباح افعال کے درمیان تطبیق دی جا سکتی ہے، لیکن اس پر یہ اعتراض آئے گا کہ ابرو کے بال نوچنے کی صورت میں بال تو دوبارہ آ جاتے ہیں حالانکہ اس کو بھی حدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے اور آپ نے بھی اس کا سوال میں تذکرہ کیا ہے۔

تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ: دوبارہ اگنے والے ابرو کے بال کافی دنوں بعد پیدا ہوتے ہیں ، جو کہ معمولی مدت نہیں ہوتی اس لیے اسے بھی دائمی تبدیلی ہی شمار کیا جائے گا، اور ویسے بھی ابرو نوچنے والی عورت بال نکلتے ہی انہیں دوبارہ پھر نوچ لیتی ہے، اس طرح ابرو نوچی ہوئی حالت میں ہی رہتے ہیں لہذا یہ بھی دائمی تبدیلی کی طرح ہو ا۔

دوم:
مباح تبدیلی میں شامل ہونی والی چیزوں کی متعدد اقسام ہیں:

1-جو علاج اور بیماری کے ازالے کے لیے ہو، جیسے کہ ابو داود: (4232) ، ترمذی: (1770) اور نسائی: (5161) میں سیدنا عبد الرحمن بن طرفہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا عرفجہ بن اسعد کی ناک جنگِ کلاب میں کٹ گئی تھی تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوا لی تو اس میں بد بو پیدا ہو گئی، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا تھا۔ اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح ابو داود: (4170) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : (لعنت کی گئی ہے بغیر کسی بیماری کے بال لگانے والی، بال لگوانے والی، ابرو نوچنے والی، ابرو نوچوانے والی ، سرمہ بھرنے والی ، اور سرمہ بھروانے والی عورت پر) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح مسند احمد: (3945) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا کہ آپ نے ابرو نوچنے والی، دانتوں میں فاصلہ کروانے والی ، بال لگوانے والی، اور سرمہ بھروانے والی سے منع کیا ہے، ماسوائے بیماری کی صورت میں۔) احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ: "ما سوائے بیماری میں" کا ظاہری مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حرمت کا حکم خود ساختہ خوبصورتی کے حصول کی صورت میں ہے نہ کہ بیماری کے علاج کی صورت میں؛ کیونکہ بیماری کا علاج حرام نہیں ہے۔" ختم شد
"نيل الأوطار" (6/229)

2-جو کسی پیدا ہونے والے عیب کو زائل کرنے کے لیے ہو، اسی میں چہرے کی چھائیاں اور رخسار کا تل وغیرہ زائل کروانا بھی شامل ہے؛ کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق کو واپس اپنی حالت میں لوٹانا ہے، یہ تغییر فی خلق اللہ نہیں ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی ادویات جو چھائیاں دور کر دیں، اور خاوند کے لیے بیوی کا چہرہ صاف کر دیں تو میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔"

اسی میں جلد کو نرم و ملائم رکھنے کے لیے استعمال کی جانے والی کریمیں بھی شامل ہیں؛ کیونکہ یہ بھی جلد کو اس کی اصلی حالت میں لوٹاتی ہیں۔

3-ایسی خوبصورتی جو عارضی ہو، دائمی نہ ہو، اصل خلقت کو نہ بدلے، جیسے کہ سرمہ، مہندی، رخساروں کی لالی اور سرخی وغیرہ؛ کیونکہ سرمہ اور مہندی دونوں ہی عہد نبوت میں معروف تھے، ایسے ہی زعفران کا رنگ اور اسی جیسی دیگر چیزیں جنہیں نسوانی بناؤ سنگھار کی چیزوں میں شامل کیا جاتا تھا، تو اس لیے خواتین کے میک آپ کی چیزیں اگر نقصان سے خالی ہوں تو انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جیسے کہ ایک حدیث میں ہے کہ عبد الرحمن بن عوف نے شادی کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو عبد الرحمن پر زردی کے اثرات تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری: (5153) اور مسلم : (1427) نے روایت کیا ہے۔

تو اس حدیث کے بارے میں علمائے کرام کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زعفرانی رنگ ان کی اہلیہ سے انہیں لگا تھا؛ کیونکہ مرد کے لیے زعفران لگانا منع ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب