جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

فرمانِ باری تعالی (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ) کا عملی نمونہ کیسے پیش کریں؟

129724

تاریخ اشاعت : 02-10-2013

مشاہدات : 5926

سوال

آیت مبارکہ (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ) ترجمہ: " مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس سےاجازت لئے بغیر جاتے نہیں " کے مطابق اپنی عملی زندگی کو کس طرح ڈھالیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی بات:

یہ آیت صحابہ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق چند آداب سیکھانے کیلئے نازل ہوئی، اور بد اخلاق اور بے ادب منافقین کی مشابہت سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ فرمانِ باری تعالی ہے: (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ) النور/62

ترجمہ: مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس سےاجازت لئے بغیر جاتے نہیں (اے رسول)! جو لوگ آپ سے (اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں، تو جب وہ اپنے کسی کام کے لئے آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دیں (اور جسے چاہیے نہ دیں) اور ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کیجئے۔ اللہ تعالیٰ یقینا بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس آیت میں اللہ تعالی نے مؤمنین کی ادبی راہنمائی کی ہے، مثلا: داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا حکم دیا، اسی طرح جاتے ہوئے بھی اجازت لینے کا حکم دیا، خصوصا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ ، نمازعید ، نماز باجماعت، مشاورتی ملاقات، یا کسی بھی اجتماعی معاملے پر اکٹھے ہوں، اللہ تعالی نے انہیں ان حالات میں اجازت یا مشورہ کے بعد جانے کا حکم دیا، اور جو اس پر عمل کرے گا وہ ہی کامل مؤمن ہے۔

پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان حالات میں اجازت طلب پر اجازت دے سکتے ہیں، اسی لئے فرمایا: (فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)ترجمہ: آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دیں اور ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کیجئے۔ اللہ تعالیٰ یقینا بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: (جب کوئی مجلس میں آئے تو سلام کرے، اور جب کوئی جانے لگے تو تب بھی سلام کرے، دونوں بار سلام کرنے کا حکم برابر ہے) ترمذی نے روایت کیا اور کہاکہ یہ حسن روایت ہے، مختصراً (تفسیر ابن کثیر: 6/88)

علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

یہ مؤمنین کیلئے اللہ کی جانب سے راہنمائی ہے، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی اجتماعی معاملے پر ہوں یعنی، کوئی بھی ایسا معاملہ جس میں سب کا اکٹھا ہونا ضروری ہو، مثلا: جہاد، مشاوراتی اجلاس، وغیرہ جہاں مصلحت کا تقاضا ہے کہ تمام لوگ اکٹھے ہوں، ان حالات میں اللہ اور رسول پر ایمان لانے والوں کیلئے مناسب نہیں کہ آپ یا آپکے نائب کی اجازت کے بغیر اپنے کسی ذاتی کام کو ترجیح دیتے ہوئے مجلس میں حاضر نہ ہوں ، یا حاضر ہونے کے بعد واپس ہو لیں، چنانچہ اللہ تعالی نے ایمان کا تقاضا یہ بیان کیا کہ اجازت کے بغیر نہیں جانا، اللہ تعالی نے اس حکم کی بجا آوری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاحترام پر انکی تعریف بھی کی، اور فرمایا: (إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ) ترجمہ: "اور جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہیں"

پھر اجازت دینے کیلئےدو شرائط ذکر کیں:

1- اجازت لینے کیلئے معقو ل عذر ہو، بغیر عذر اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

2- آپ کیلئے اجازت دینے میں کوئی حرج نہ ہو،اسی لئے تو اللہ نے فرمایا: (فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ) ترجمہ: "جب آپ سے اپنے کسی ذاتی کام کیلئے اجازت طلب کریں تو جسے چاہیں آپ اجازت دیں" چنانچہ کسی نے عذر کی وجہ سے اجازت طلب کی ، تو اگر انکی موجودگی ضروری ہو تو اجازت مت دیں، اور اگر دونوں شرائط کی موجودگی پراجازت دے دی جائے تو اللہ تعالی نے اپنے نبی –صلی اللہ علیہ وسلم- کو حکم دیا کہ ان کیلئے اللہ سے بخشش مانگے، کہیں اجازت مانگنے پر ان سے کوئی کوتاہی سر زد نہ ہو گئی ہو، اسی لئے فرمایا: (وَاسْتَغْفِرْ لَهُم اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)ترجمہ: " اور ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کیجئے, اللہ تعالیٰ یقینا بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے " تاکہ اللہ تعالی انکے گناہ معاف بھی کردے، اور رحم بھی کرے، کیونکہ اللہ تعالی نے عذر کی بنا پر اجازت لینے کی رخصت دی ہے۔ تیسیر الکریم الرحمن(576)

دوسری بات:

موجودہ وقت میں آیت کریمہ پر بہت سے انداز سے عمل کیا جاسکتا ہے، جن میں اہم ترین یہ ہیں:

1- شرعی احکام اور سنتِ نبوی پر کار بند رہنا، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی کام کرنے کی معنوی طور پر اجازت پائی جاتی ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جب اللہ تعالی نے کسی بھی جگہ جانے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت ایمان کے لوازم سے قرار دی تو کسی بھی علمی موقف اپنانے کیلئے اجازت اورتائید تو اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث سے معلوم ہوگی" اعلام الموقعین (1/51)

2- مفاد عامہ کیلئے مشاورتی اجلاس سے باہر سربراہ یا ذمہ داران کی اجازت کے بعد ہی جائیں، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا: "باب ہے سربراہ سے اجازت طلب کرنے کے بارے میں، اسی بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ )"

پہلے سعدی رحمہ اللہ کا قول گزر چکا ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ذمہ داران سے اجازت لینے کے بارے میں ہے۔

اسی طرح موسوعہ فقہیہ (3/155) میں آیا ہےکہ: "حکومت مفاداتِ عامہ کی حفاظت کیلئے قائم کی جاتی ہے، چنانچہ ذمہ داران سے متعلقہ حدود کے اندر اجازت لینا انتہائی ضروری ہے، تاکہ معاملات کو چلایا جاسکے، اور اختلافات پیدا نہ ہوں، اجازت کا مسئلہ بہت وسیع ہے اسکی چند مثالیں یہ ہیں: جنگ کے دوران فوجی کیمپ سے سامان خوردو نوش یا جنگی آلات لانے کیلئے باہر جانا، دشمن کو دعوتِ مبارزت دینا، بلکہ ایسے وقت میں کوئی بھی کام کمانڈر کی اجازت کے بغیر نہیں کرنا چاہئے؛ کیونکہ کمانڈرکو اپنے اور دشمن کے حالات کا زیادہ اندازہ ہوتا ہے، اگر کوئی شخص کمانڈر کی اجازت کے بغیر باہر نکلے گا تو عین ممکن ہے کہ گھات میں بیٹھے دشمن کے نرغے میں آجائے اور پکڑا جائے، یا کمانڈر مسلمانوں کو لیکر چلا جائے اور وہ پیچھے اکیلا رہ جانے کی بنا پر ہلاک ہو جائے،اسی طرح نقل مکانی کی بنا پر لشکر سے بچھڑ جائے، یا لشکر کے بعض افراد کسی مہم جوئی کیلئے پیچھے رہنا چاہیں تو ان کیلئے اجازت لینا انتہائی ضرور ی ہے، اسی طرح سربراہ یا حکمران مشورہ کیلئے اجلاس بلائے تو کسی کیلئے بغیر اجازت واپس جانے کی اجازت نہیں، کیونکہ انکے مشورے کی بھی ضرورت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ) ترجمہ: "مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس سےاجازت لئے بغیر جاتے نہیں (اے رسول)! جو لوگ آپ سے (اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں" یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ، کیونکہ حکمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مفادِ عامہ کے ذمہ دار ہیں اس لئے ان پر بھی یہ آیت صادق آتی ہے"

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب