اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کو اسکولوں میں تعلیم دلوانا

سوال

سوال: ہم نے سنا ہے کہ مسلمان بچوں کو کفار کے اسکولوں میں تعلیم دلوانا حرام ہے، میں ان بچوں کی بات کر رہا ہوں جو یورپ اور امریکہ (دار الکفر)میں رہ رہے ہیں ، واضح رہے کہ مسلمانوں کے اسکول بھی موجود ہیں لیکن وہ تمام کے تمام پرائیویٹ ہیں ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں، تو ایسے شخص کیلیے کیا حکم ہے جو مسلم اسکولز کی فیسیں ادا کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو؟
میں امید کرتا ہوں کہ اس سوال کا جواب ضرور دیں گے ؛ کیونکہ یہ بہت گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے، بہت سے مسلمان جو اپنے بچوں کے تعلیمی امور کا خیال رکھتے ہیں اس مسئلے کا شکار ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر بچوں کو کفار کے اسکولوں میں تعلیم دلوانے پر خرابیاں پیدا ہوں ، مثلاً: بچوں کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ عیسائیت میں ڈھل جائیں گے اور اسے قبول کر لیں گے، دینِ اسلام سے بیزار ہو جائیں گے، کفار کو حد سے زیادہ اچھا سمجھنے لگیں گے، مسلمانوں کو اور علومِ اسلامیہ کو حقیر جاننے لگیں گے یا اسی طرح کی دیگر سنگین خرابیاں پیدا  ہونے کا خدشہ ہو تو ہم کہیں گے کہ: کفار کے ان اسکولوں میں تعلیم دلوانا حرام ہے۔

ان کا  والدین کی طرح دین اسلام پر باقی رہنا  انہیں ایسی چیزیں پڑھانے سے بہتر ہے جن سے وہ دینِ اسلام سے باہر نکل جائیں۔

لیکن اگر بچوں کے سرپرست بچوں کی بھر پور نگرانی کریں، ان کی اسلامی طریقے پر تربیت کریں، اور انہیں غیر مسلموں کے اسکولوں میں صرف اتنی تعلیم دلوائیں جن کی وجہ سے وہ ان کی زبان لکھنا ، پڑھنا اور بولنا سیکھ لیں اور حساب کرنے لگیں تو یہ جائز ہے، تاہم بچوں کے سر پرستوں کی ذمہ داری ہے کہ یومیہ اور ہفتہ وار بنیاد پر اپنے بچوں کی پوری نگرانی کریں۔

ان کی معلومات چیک کریں، انہیں غلط عقائد سے خبر دار کریں ،  غلط الفاظ کے استعمال سے روکیں، بچوں کو کفار کی ترویجی مہموں  میں نہ آنے کی تلقین کریں، تا کہ وہ کفریہ اور غلط عقائد سے بچ سکیں، یہ سب باتیں اس شخص کیلیے ہیں جو مسلم اسکولوں  کی فیسیں ادا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔

واللہ اعلم.

ماخذ: فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ