الحمد للہ.
یتیم کی کفالت کرنا ایک اچھا اور مفید عمل ہے، اس عمل کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں میں تھوڑا سا فاصلہ بھی رکھا) بخاری: (5304) مسلم: (2983)
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"یتیم کی کفالت کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو یتیم کی ضروریات پوری کرے اس کی تعلیم و تربیت، کھانے پینے اور لباس کا خیال رکھے اور دیگر امور کی دیکھ بھال کرے، نیز یہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو اپنے ذاتی مال سے یتیم کی کفالت کرے یا شرعی کفالت کے تحت یتیم کی کفالت کرے" ختم شد
وزارت سماجی امور میں نافذ العمل قانون کو پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس میں ذکر کیا گیا ہے:
"2- یتیموں کی کفالت کرنے والے گھرانوں کی مالی امداد: یہ امداد ان گھرانوں کو دی جائے گی جو کفالت کے محتاج بچوں کے لیے خاص ایکٹ مجریہ 13/05/1395 ہجری بموجب نوٹیفکیشن نمبر: 612، از مجلس وزرا ، کی شق نمبر 14 کے تحت وزارت کی نیابت کرتے ہوئے یتیموں کی کفالت کرتے ہیں، اس میں ہے کہ: "وزارت کی جانب سے بچے کو کفالت میں لینے کے دن سے ماہانہ بنیاد پر یہ امداد دی جائے گی، بشرطیکہ کفالت میں لینے والی طرف امداد وصول کرنا قبول کرے ۔، اس کی تفصیلات یہ ہیں:
- 2000 ریال ماہانہ ہر ایسے یتیم بچے کے لیے جو 6 سال کی عمر سے کم ہوں۔
- 3000 ریال ماہانہ ہر ایسے یتیم بچے کے لیے جو 6 سال کی عمر سے زیادہ ہوں۔
3- مدت کفالت مکمل کرنے کی امداد: نوٹیفکیشن نمبر (1430)، مورخہ 13/05/1395 ہجری میں ہے کہ جو گھرانے ایسے بچوں کی کفالت کرتے ہیں جن کے والدین نامعلوم ہیں تو مدت کفالت مکمل کرنے پر انہیں 20000 ریال دیا جائے گا" وزارت سماجی امور کی ویب سائٹ سے اقتباس مکمل ہوا۔
دیکھیں: http://www.mosa.gov.sa/portal/cdisplay.php?cid=10
ان قوانین کی رو سے یہ واضح ہے کہ یہ امداد یتیم کی کفالت کرنے والے گھرانوں کو دی جاتی ہے یہ یتیم کا نان و نفقہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ رقم مدت کفالت مکمل کرنے پر دی جاتی ہے۔
اس لیے یہ امداد یتیم کی کفالت کرنے والے گھرانے کی ملکیت ہے ، اس لیے اگر یہ رقم بچ جائے تو کفالت کرنے والا گھرانہ اسے اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم.