الحمد للہ.
اول:
اس لڑكى كو اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے يہ معلوم ہونا چاہيے تھا كہ خودكشى حرام اور كبيرہ گناہ ہے، اور جس نے بھى اپنے آپ كو جس چيز سے قتل كيا تو آخرت ميں اسے وہى عذ اب ديا جائيگا اور وہ اس چيز كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كرتا رہےگا جيسا كہ سوال نمبر ( 70363 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.
نفسياتى بمياريوں كا علاج ذكر و اذكار اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كى جانب رجوع اور كسى نفسياتى ڈاكٹر سے رجوع ميں پايا جاتا ہے.
دوم:
عورت كے ولى كو چاہيے كہ وہ اپنى بيٹى وغيرہ كا نكاح كسى مناسب اور نيك و صالح شخص سے كر دے؛ تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان پر عمل ہو:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو اس كے ساتھ ( اپنى بيٹى وغيرہ كا ) رشتہ كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں لمبا چوڑا فساد پيدا ہو گا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) اسے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ولى كو حق حاصل نہيں كہ وہ جس سے شادى كرنے پر راضى ہو اور وہ رشتہ مناسب و كفؤ والا ہو تو اسے صرف نيشنلٹى يعنى شہريت دوسرى ہونے كى وجہ سے رد كر دے، ليكن اگر اس ميں كوئى ايسا مانع ہو جو اس سے شادى كرنے ميں معتبر مانع شمار ہوتا ہو تو پھر جائز ہے، وگرنہ وہ اسے شادى سے روكنے والا شمار ہو گا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عضل كا معنى يہ ہے كہ عورت كو اس كے ليے مناسب رشتہ والے شخص شادى كرنے سے روك ديا جائے جبكہ عورت اس سے شادى كا مطالبہ كرتى ہو، اور دونوں ہى ايك دوسرے كى رغبت ركھتے ہوں.
معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
" ميں نے اپنى بہن كا ايك شخص سے نكاح كر ديا تو اس نے اسے طلاق دے دى حتى كہ جب اس كى عدت گزر گئى تو وہ پھر اس سے شادى كرنے آ گيا تو ميں نے اسے كہا:
ميں نے اس سے تيرى شادى كى اور اسے تيرى بيوى بنايا اور تيرى عزت و احترام كيا اور تو نے اسے طلاق دے دى اب پھر تم اس سے شادى كرنے آئے ہو، اللہ كى قسم وہ اب تيرى كبھى بيوى نہيں بن سكتى، اور اس شخص ميں كوئى حرج نہيں تھا، اور وہ عورت بھى اس كے پاس واپس جانا چاہتى تھى، تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل كر دى:
تو تم ان كو شادى سے مت روكو " لا تعضلوھن " تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اب ميں اس كى شادى كرتا ہوں، راوى بيان كرتے ہيں: تو انہوں نے اس كى شادى اس شخص سے كر دى " اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اس ليے اگر عورت كسى بعينہ كفؤ اور مناسب رشتہ والے شخص ميں رغبت ركھتى ہو اور ولى كسى اور سے شادى كرنا چاہتا ہو اور جس سے لڑكى شادى كرنا چاہتى ہے اس سے شادى نہ كرے تو وہ اسے شادى سے روكنے والا اور عاضل شمار ہوگا.
ليكن اگر لڑكى بغير مناسب اور غير كفؤ رشتہ والے شخص سے شادى كرنے كا مطالبہ كرتى ہے تو ولى كو روكنے كا حق حاصل ہے، اور وہ عاضل شمار نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 383 ).
اور عضل يعنى شادى سے روكنا ايك ولى سے دوسرے ولى ميں ولايت كے انتقال كا سبب ہے اور ولى صرف عصبہ شخص ہى بنےگا.
اس بنا پر اگر تو وہ شخص جس كا رشتہ آيا تھا كفؤ اور مناسب تھا اور ولى نے اس سے شادى كرنے سے انكار كر ديا تو بھائى نے بہن كى شادى اس سے كر دى تو اس كا نكاح صحيح ہے لڑكى كو چاہيے كہ وہ اپنے گھر والوں اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آئے اور انہيں راضى كرنے كى كوشش كرے.
ليكن اگر اس كا ولى اس رشتہ سے انكار كرنے اور اس كى شادى اس شخص سے نہ كرنے ميں حق پر تھا كہ اس كے پاس كوئى ايسا سبب تھا جو اس سے شادى كرنے ميں معتبر مانع شمار ہوتا ہے مثلا وہ فاسق تھا يا صالح نہيں تھا تو كسى بھى ولى كے ليے جائز نہيں كہ وہ باپ كے بعد اس لڑكى كى شادى اس شخص سے كر سكے، اس صورت ميں جمہور فقھاء كے ہاں يہ نكاح صحيح نہيں ہو گا؛ كيونكہ يہ نكاح ولى كے بغير ہوا ہے اور ولى كے بغير نكاح سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا اور اسے باطل قرار ديا ہے، اس ليے اس صورت ميں ولى كو تجديد نكاح پر راضى كيا جائيگا، يا پھر اس كى موافقت كا اعلان ہو.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 13929 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .