الحمد للہ.
تمام فقہائے کرام سجدہ تلاوت کے بارے میں وارد آیات، اور احادیث کی بنا پر ان کی مشروعیت کےقائل ہیں، چنانچہ جب کوئی مسلمان سجدہ تلاوت والی آیت نماز میں یا خارج از نماز پڑھے تو سجدہ کرے، صحیح مسلم : (81) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان سجدہ تلاوت والی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان دور جا کر رونے لگتا ہے، اور کہتا ہے: ہاے تباہی! ابن آدم کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو وہ سجدہ کر کے جنت پا گیا، اور مجھے سجدہ کا کہا گیا تو میں نے انکار کر کے جہنم لے لی)
لہذا اس موقع پر سجدہ ضروری ہے، اور سجدہ تلاوت کی جگہ کچھ اور تسبیحات یا اذکار پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت ہے، اس سے روکنا چاہیے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص ہمارے دین میں نئی بات ایجاد کرے جو اس میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے) متفق علیہ
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث اسلام کے قواعد میں سے ایک عظیم قاعدے پر مشتمل ہے، نیز یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم میں سے ہے، اور ہر بدعت و خود ساختہ امور کی تردید کیلئے واضح ترین نص ہے۔"انتہی
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:( تم میری سنت اور خلفائے راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
) ابو داود: (4607) البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ سے سجدہ تلاوت ترک کرنے پر (سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَك رَبَّنَا وَإِلَيْك الْمَصِيرُ) [یعنی: ہم نے سن لیا، اور اطاعت کی، ہمارے پروردگار! تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے]کہنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ یہ سجدہ تلاوت کا متبادل ہوسکتاہے، بلکہ ایسا کرنا مکروہ ہے، کیونکہ اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے"انتہی مختصرا
"الفتاوى الفقهية الكبرى" (1/194)
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جس وقت ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کی آیت سے گزریں، اور ہم مسجد یا نماز کی جگہ پر نہ ہوں، مثلاً: سکول میں ہوں، تو ہم چار بار کہتے ہیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير) تو کیا ایساکرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ جائز نہیں ہے تو پھر ہم کیا کریں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"قرآن کی تلاوت کرنے والا جب سجدہ کی آیت سے گزرے ، اور وہ ایسی جگہ پر موجود ہو جہاں سجدہ کرنا ممکن ہو تو اس کیلئے سجدہ کرنا مستحب ہے، اورصحیح قول کے مطابق سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے؛ کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے جمعہ کی نماز میں سجدہ تلاوت والی آیت قراءت کی ، پھر آپ اترے اور سجدہ کیا، اس کے بعد دوسرے جمعہ کو بھی سجدہ تلاوت والی آیت پڑھی لیکن سجدہ نہیں کیا، اور فرمایا: "بیشک اللہ تعالی نے ہم پر سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا، اگر ہم چاہیں [تو کر سکتے ہیں]" چنانچہ اگر کوئی شخص سجدہ نہیں کرتا تو اس کے متبادل کے طور پر کچھ نہ کہے، کیونکہ ایسا کرنا بدعت ہے، اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سورہ نجم تلاوت کی،اور سجدہ نہیں کیا، اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ تلاوت کےبدلے میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کچھ سکھایا"انتہی
"فتاوى إسلامية" (4/66)
واللہ اعلم.