الحمد للہ.
"اگر انسان کے ذمہ قرض ہو یا اس نے کوئی چیز گروی وصول کی ہوئی ہے، یا کسی کی امانت اپنے پاس رکھی ہوئی ہے اور اسے ان کے مالک کے فوت ہو جانے کے بعد اس کے کسی رشتہ دار کا بسیار تلاش اور کوشش کے بعد بھی علم نہ ہو سکے تو پھر ان چیزوں کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر دے، مثلاً: فقرا میں بطور صدقہ تقسیم کر دے، یا کسی مسجد کی تعمیر میں لگا دے، یا کسی اور اسلامی پراجیکٹ پر خرچ کر دے تا کہ اس کا فائدہ میت کو ہو۔ لیکن یہ لازمی شرط ہے کہ اس نے میت کے رشتہ داروں کو تلاش کرنے کی بھر پور کوشش کی ہو لیکن پھر بھی کوئی اس کا رشتہ دار نہ ملا ہو اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ملا ہو جا اس کے رشتہ داروں کے بارے میں بتلا دے تو ایسی صورت میں ان چیزوں کو فقرا پر صدقہ کر دے، یا کسی مسجد کی تعمیر میں اسے لگا دے، یا اسی طرح کے کسی اور خیراتی منصوبے میں رقم صرف کر دے، یا پھر علاقے کے سرکاری حاکم کو سپرد کر دے یا قاضی کو جمع کروا دے اور اس کی رسید وصول کر لے تو یہ بھی کافی ہو گا۔ لیکن اسے خیر کے کاموں میں صرف کر دے تو اس کی وجہ سے متعلقہ افراد کو جلد فائدہ پہنچنا شروع ہو جائے گا؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے عمل کرنے والے کو بھی اجر ملے گا اور جس کی طرف سے صدقہ کیا گیا ہے اسے بھی اجر ملنا شروع ہو جائے گا۔ " ختم شد
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
"فتاوى نور على الدرب" (3/1464)
واللہ اعلم