سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بچے پسند نہيں كسى دوسرے سے بچے پيدا كرنے كے ليے بيوى كو طلاق دينا

132219

تاریخ اشاعت : 05-04-2010

مشاہدات : 6678

سوال

ميں ايك بانجھ عورت سے شادى شدہ ہوں، اور شادى كے دو برس بعد ميرى بيوى ٹيسٹ ٹيوب كے ذريعہ بچے كى پيدائش چاہتى ہے ليكن ميں بچے پيدا نہيں كرنا چاہتا، يہ علم ميں رہے كہ ميں نے اس بانجھ عورت سے شادى كى تھى اور شادى سے قبل يہ واضح كيا تھا كہ ميں بچے پيدا نہيں كرنا چاہتا اور اس نے اس كو قبول كيا تھا.
ليكن بعد ميں كہنے لگى كہ ميں اس حالت ميں نہيں رہ سكتى اور وہ طلاق بھى نہيں چاہتى، تو كيا ميرے ليے اسے طلاق دينا جائز ہے تا كہ وہ كوئى دوسرا خاوند تلاش كر لے جو بچے پيدا كرنے ميں اس كا تعاون كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بچہ خاوند اور بيوى دونوں كا حق ہے، اس ليے اگر بيوى بچہ پيدا كرنے كى رغبت ركھتى ہے اور خاوند ايسا نہيں كرتا تو بيوى كو طلاق لينے كا حق حاصل ہے، كيونكہ بچے كى ضرورت بہت شديد ضرورت ميں شامل ہوتى ہے.

خاوند كے ليے اسے طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اسے دوسرے خاوند سے بچہ عطا كر دے، ليكن ہم يہ كہتے ہيں كہ: آپ كو يہ جاننا چاہيے كہ بچہ ايك عظيم نعمت ہے، اور آپ بچہ كے بغير جسے راحت محسوس كرتے ہيں يہ راحت بچہ كى موجودگى اور بھى زيادہ ہو جاتى ہے، كيونكہ بچہ اور اولاد تو زندگى كى زينت ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مال و دولت دنيا كى زندگى كى زينت ہے، اور باقى رہنے والے تو نيك و صالح اعمال ہيں جو تيرے رب كے نزديك ازروئے ثواب اور ( آئندہ كى ) اچھى توقع كے بہت بہتر ہے الكہف ( 46 ).

اس ليے اگر بيوى نيك و صالح اور صاحب اخلاق ہے تو اسے ركھنا ہى بہتر ہے، اميد ہے اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو نيك و صالح اولاد عطا كرے جس سے تمہارى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.

اس مصنوع طريقہ سے اولاد پيدا كرنے ميں كوئى حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اگر نطفہ خاوند اور بيوى كا ہى ليا جائے اور اسے مصنوع طريقہ سے ملا كر بيوى كے رحم ميں پالا جائے، يا پھر پھر خاوند كا نطفہ لے كر انجيكشن كے ذريعہ بيوى كے رحم ميں مناسب جگہ پر ركھا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن اس كے علاوہ بہت سارى حرام صورتيں ہيں جن كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 3474 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

حاصل يہ ہوا كہ:

آپ كے ليے اپنى بيوى كو طلاق دينا جائز ہے تا كہ وہ اپنى خواہش كے مطابق اولاد حاصل كر سكے، اور اگر آپ اسے اپنے پاس ركھيں اور اس كى خواہش كے مطابق مباح طريقہ سے اولاد كے حصول ميں اس كى معاونت كريں تو يہ افضل و بہتر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب