الحمد للہ.
"افضل یہی ہے کہ فجر کی دو سنتوں پر اکتفا کرے، یہی دو رکعت تحیۃ المسجد کے قائم مقام بھی ہو جائیں گی، بالکل ایسے ہی جیسے فرض رکعات تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہو جاتی ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور جماعت کھڑی ہو تو انہی کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کی فرض نماز تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہو جائے گی۔ تو شرعی حکم یہ ہے کہ نماز پڑھ کر ہی بیٹھے [چاہے نفل پڑھے یا فرض] ، اگر یہ شخص فجر کی سنتیں پڑھ لیتا ہے تو کافی ہے، اور اگر جماعت کھڑی ہو تو فرض نماز تحیۃ المسجد سے کافی ہو جائے گی۔
اور اگر دونوں ہی پڑھ لے یعنی تحیۃ المسجد الگ ادا کرے اور پھر فجر کی سنتیں ادا کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس طرح نہ کرنا زیادہ بہتر ہے، افضل اور اچھا عمل یہ ہے کہ صرف فجر کی سنتیں ادا کرے ؛ کیونکہ یہ سنت مؤکدہ ہیں اور تحیۃ المسجد کی جگہ صرف انہی دو رکعتوں پر اکتفا کرے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فجر کی اذان کے بعد صرف فجر کی دو سنتیں ہی ادا کیا کرتے تھے، اس لیے افضل یہی ہے کہ آپ دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں؛ کیونکہ جب آپ فجر کی سنتوں کی نیت سے یہ دو رکعت ادا کریں گے تو یہ تحیۃ المسجد سے بھی کافی ہو جائیں گی۔
لیکن اگر وہ شخص فجر کی سنتیں اپنے گھر میں ادا کرے اور پھر مسجد میں آئے اور ابھی نماز کھڑی نہ ہوئی ہو تو پھر یہ شخص مسجد میں بیٹھنے سے پہلے تحیۃ المسجد ادا کرے گا؛ کیونکہ اب اس پر فجر کی سنتیں نہیں ہیں؛ کیونکہ اس نے فجر کی سنتیں پہلے گھر میں پڑھ لی ہیں اس لیے اب تحیۃ المسجد پڑھ کر مسجد میں بیٹھے۔ " ختم شد
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ
فتاوی نور علی الدرب (2/878)