الحمد للہ.
شيعہ حضرات عقائد و اصول ميں اہل سنت كے مخالف ہيں، اور شيعہ مسلك كى جانب منسوب لوگ اپنے عقائد پر عمل كرنے ميں ايك دوسرے سے مختلف ہيں، ان ميں سے كچھ تو جاہل و مقلد ہيں جنہيں اہل سنت اور شيعہ ميں كسى فرق كا علم نہيں، ان ميں ايسے بھى ہيں جو شيعہ مسلك كے اصول و عقائد پر سختى سے كاربند ہيں، اور اپنے مذہب كا علم بھى ركھتے ہيں، نكاح كا حكم بھى اسى پر مبنى ہے.
شيعہ كے ہاں فاسد عقائد ميں يہ بھى شامل ہيں:
وہ اكثر صحابہ كرام پر سب و شتم كرتے ہيں، اور اكثر صحابہ كرام كے ارتداد اور كفر كا عقيدہ ركھتے ہيں، اور ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا جنہيں اللہ سبحانہ و تعالى نے ساتوں آسمانوں سے برى كيا ہے كے بارہ ميں طعن كرتے ہيں اور وہ غير اللہ مثلا على حسن اور حسين اور آئمہ اہل بيت كو پكارتے ہيں، مصيبتوں اور سختيوں اور تكليف كے وقت انہيں كو پكارتے ہيں كہ يہى مصيبت دور كرينگے، اور ان ميں سے بعض غلو كرتے ہوئے تحريف قرآن كا اعتقاد بھى ركھتے ہيں، اور كہتے ہيں كہ صحابہ كرام نے قرآن ميں سے كچھ اشياء حذف كر ديں ہيں، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى خلاف و ولايت كے بارہ جو كچھ تھا اس ميں نقص پيدا كر ديا ہے.
اور ان كے فاسد عقائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ:
اولياء اللہ غيب كا علم ركھتے ہيں، جو ہوگا اور جو ہوا ہے اس كا بھى علم ركھتے ہيں، اور يہ معصوم عن الخطاء ہيں ہونے كے ساتھ ساتھ بھولتے بھى نہيں، حالانكہ يہ سب كفر و گمراہى ہے.
لہذا جس كسى كا بھى يہ عقيدہ ہو جب تك وہ اس سے توبہ نہ كر لے اس سے نكاح كرنا جائز نہيں، كيونكہ كسى بھى ايسى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں جو كفر كو اپنا دين بنائے، اور اسى پر رہے.
اور اگر وہ ان عقائد ميں سے كوئى عقيدہ نہ ركھتى ہو يا پھر وہ ان عقائد پر تو تھى ليكن توبہ كر چكى ہے، تو اصلا اس كے ساتھ نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اسى ميں اس كى خير ہے اور اسے اس كے خاندان كے عقائد سے چھٹكارا دلانا ہے ليكن اگر خدشہ ہو كہ اس كا خاندان اس پر يا اس كى اولاد پر اثرانداز ہوگى تو بلاشك و شبہ ايسى عورت سے شادى نہ كرنا ہى بہتر ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 44549 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
جب يہ لڑكى كہتى ہے كہ وہ شيعہ كا مذہب چھوڑ كر اہل سنت كا مسلك اختيار كر لے گى جب يہ معاملہ ايسے ہى مكمل ہوا تو اس كا معنى ہے كہ يہ لڑكى اپنے مذہب كے ليے متعصب نہيں، اور غالبا وہ جس شيعى مسلك پر چل رہى ہے اسے اس كے بارہ ميں تفصيلى علم بھى نہيں ہے، تو پھر آپ اس فرصت و موقع سے فائدہ كيوں نہيں اٹھاتے، اور اہل سنت اور شيعہ كے مابين فرق پر بحث كيوں نہيں كرتے.
پھر جب حق واضح و ظاہر ہو جائے تو اس كى اتباع كرنى واجب ہے، اور اسى ميں آپ اور اس كے ليے خير و بھلائى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آپ كے ذريعہ اللہ تعالى كسى ايك شخص كو ہدايت نصيب كر دے تو يہ تمہارے ليے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2942 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2406 ).
حمر النعم: يہ اونٹوں كى ايك معروف قسم ہے، اور عرب ميں اس وقت سب سے زيادہ قيمتى مال شمار كيا جاتا تھا.
اور اسى ميں آپ دونوں كى اولاد كے ليے بھى خير، اگر آپ كى شادى ہوگئى اور اللہ نے آپ كو اولاد دى، تا كہ آپ اور آپ كى بيوى جو اولاد كى تربيت كرينگے اس ميں بھى تعارض و اختلاف نہيں ہوگا.
اللہ تعالى آپ دونوں ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم.