جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

سودی بینک میں کام کرنے کی وجہ سے والدہ کو ملنے والی پنشن بچوں کے لیے حلال ہے؟

سوال

ایک شخص کی اہلیہ اپنی والدہ کے ہمراہ مقیم ہے، اس کی والدہ ایکسچینج ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی اور اب اسے پنشن مل رہی ہے، میری ساس کا اصرار ہے کہ اس کی بیٹی خرچہ نہ اٹھائے، تو اب اس کا کیا حل ہے؟ اس صورت حال میں وہ شخص نہ تو اپنی اہلیہ کو وہاں سے لے جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے اکیلے مکان میں رکھ سکتا ہے، ان کی ایک شیر خوار بچی بھی ہے، تو اس صورت حال میں کیا کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سودی بینکوں میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی اس ملازمت سے کمائی ہوئی دولت حلال ہے۔ الا کہ بینک ملازم کو اس کی حرمت کا علم نہیں تھا، تو پہلے سے کمائی ہوئی دولت اس کے لیے حلال ہو گی، اور اس میں پنشن اور تنخواہ سے ہونے والی کٹوتی بھی حلال ہو گی، لیکن اگر اسے علم تھا تو پھر ان میں سے کچھ بھی حلال نہیں ہو گا۔

مزید کے لیے سوال نمبر: (12397 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

سودی بینک میں کام کرنے کی وجہ سے جو مال حرام ہوا ہے وہ صرف کمانے والے پر حرام ہے، چنانچہ اگر کوئی جائز مد میں اس کمانے والے سے وہی مال لیتا ہے تو اس کے لیے وہ حرام نہیں ہو گا، لہذا بیٹی اگر اس مال میں سے کھائے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ بچنا بہتر ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب بچاؤ کے ساتھ نصیحت ، اور سودی مال سے نفرت، اور سودی طریقے سے کمائی گئی دولت سے بچنے کی تلقین شامل ہو۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا:
میرے والد کو اللہ تعالی معاف فرمائے، وہ ایک سودی بینک میں ملازم ہیں، اب ہمارے لیے کیا حکم ہے کہ ہم اپنے والد کی کمائی کھا پی سکتے ہیں؟ یہاں یہ بھی واضح کر دیں کہ ہمارا گھر کا ایک اور ذریعہ آمدن بھی ہے اور وہ ہے میری بڑی بہن کی تنخواہ؛ کیونکہ وہ بھی ملازمت پیشہ ہیں، تو کیا یہ ٹھیک ہے کہ ہم اپنے والد کی کمائی سے خرچہ نہ لیں بلکہ اپنا خرچہ بڑی بہن کی کمائی سے لیں، واضح رہے کہ ہمارا خاندان کافی بڑا ہے۔ یا یہ ہے کہ میری بہن پر ہمارے اخراجات لازم نہیں ہیں اس لیے ہم صرف اپنے والد کی کمائی سے ہی لے سکتے ہیں؟

اس کے جواب میں انہوں نے کہا:
"میرا موقف یہ ہے کہ: آپ اپنا خرچہ اپنے والد سے ہی لیں، آپ کے لیے وہ حلال ہے اور آپ کے والد کے لیے حرام ہے؛ کیونکہ آپ اپنا خرچہ صحیح مد میں لے رہے ہو؛ کیونکہ آپ کے والد کے پاس مال ہے آپ کے پاس تو کچھ بھی نہیں ، اس لیے تم اپنے والد سے خرچہ صحیح لے رہے ہو، اگرچہ اس کا گناہ، بوجھ اور وزر تمہارے والد پر ہو گا، لیکن اس گناہ کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دیکھیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک یہودی سے تحفہ قبول کرتے ہیں، یہودیوں کا کھانا بھی کھاتے ہیں، ایسے ہی یہودی کے ساتھ لین دین بھی کرتے ہیں، حالانکہ یہودی سودی لین دین اور حرام کھانے میں مشہور تھے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے حلال طریقے سے لیا ہے، لہذا جب صحیح طریقے سے کوئی کسی چیز کا مالک بن جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دیکھیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی لونڈی بریرہ، اُنہیں صدقے میں گوشت دیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی وقت گھر آئے تو ہنڈیا میں گوشت پکتا ہوا پایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانا طلب کیا، تو آپ کو کھانا پیش کیا گیا لیکن اس میں گوشت نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا مجھے چولہے پر ہنڈیا نظر نہیں آئی تھی؟! تو اہل خانہ نے کہا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! لیکن اس ہنڈیا میں موجود گوشت بریرہ کو صدقے میں ملا تھا، اور آپ صدقے کی چیز نہیں کھاتے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور [بریرہ کی طرف سے] ہمارے لیے ہدیہ ہے)تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ گوشت تناول فرمایا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر صدقے کا مال کھانا حرام ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بطور صدقہ نہیں لیا بلکہ بطور تحفہ اور ہدیہ لیا ہے۔

تو ان بہن بھائیوں کے لیے ہم کہیں گے: تم اپنے والد کی کمائی کھل کر کھا پی سکتے ہو، سودی کمائی کا وبال تمہارے والد پر ہی ہو گا، الا کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے، اور وہ توبہ کر لے، کیونکہ توبہ کرنے والے کی توبہ اللہ تعالی قبول فرماتا ہے۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب