منگل 4 جمادی اولی 1446 - 5 نومبر 2024
اردو

اس كے ملك ميں بغير ولى كے نكاح كيا جاتا ہے كيا تجديد نكاح كرنا ضرورى ہے

132787

تاریخ اشاعت : 25-02-2010

مشاہدات : 9170

سوال

ميرا سوال عقد نكاح ميں عورت كے ولى كى موجودگى كے متعلق ہے، ميں نے آپ كى ويب سائٹ پر ولى كے متعلق سب فتاوى جات كا مطالعہ كيا ہے، بلاشك و شبہ عورت كا ولى ہى وہ شخص ہے جو عقد نكاح ميں ايجاب يعنى اپنى ولايت ميں موجود لڑكى كا نكاح كرتا ہے، كيونكہ دين اسلام ميں عورتوں كو اپنا نكاح خود كرنے كى اجازت نہيں، ميں يہ دريافت كرنا چاہتا ہوں كہ اگر عقد نكاح كے وقت عورت كا ولى نہ ہو تو كيا يہ نكاح شريعت اسلاميہ كے مطابق باطل ہوگا ؟
اب ميں آپ كو اپنے ملك ميں عقد نكاح كى كيفيت بتانا چاہتا ہوں ہمارے ہاں ( يعنى ازبكستان ) اور ميرے عقد نكاح كے وقت كيا حالت تھى وہ يہ كہ امام اور دلہا اور دلہن اور دو گواہ حاضر ہوتے ہيں،ا ور امام صاحب پہلے تو خطبہ پڑھتے ہيں وہ اس طرح كہ پہلے كچھ آيات كى تلاوت كرتے ہيں، اور پھر كچھ دعائيں پڑھتے ہيں، پھر عورت " مثلا جميلۃ بنت حسين " سے دريافت كرتے ہيں، كيا تم " مثلا عبد اللہ بن عبد الرحمن " سے شادى كرنا قبول كرتى ہو، تو وہ عورت كہتى ہى جى ہاں ميں قبول كرتى ہوں ( يہ ملاحظہ رہے كہ وہ عورت يہ نہيں كہتى كہ اے عبد اللہ بن عبد الرحمن ميں اپنى شادى تيرے ساتھ كرتى ہوں " ميرى مراد يہ ہے كہ امام مسجد اس عورت سے دريافت كرتا ہے بالكل اسى طرح جيسے ولى اس سے موافقت طلب كرتا ہو، كيونكہ ولى كى غير موجودگى ميں يہ مناسب ہے، كيونكہ امام مسجد بھى اس كا ولى بن سكتا ہے.
پھر وہ ہونے والے خاوند سے دريافت كرتا ہے " اے عبد اللہ بن عبد الرحمن كيا تم جميلہ بنت حسين كو اپنى بيوى قبول كرتے ہو ؟ " تو وہ كہتا ہے ميں قبول كرتا ہوں.
جيسا كہ ميں كہہ چكا ہوں كہ وہاں دو گواہ بھى موجود ہوتے ہيں، ميرے عقد نكاح ميں بھى يہى كچھ ہوا، ہمارے ہاں مشكل مصدر ميں ہے: وہ اس طرح كہ ہمارے ہاں حنفى مسلك پر عمل كيا جاتا ہے، اور ہمارے ہاں جو كتابيں معروف اور پھيلى ہوئى ہيں وہ بھى فقہ حنفى كى ہيں.
مجھے بعد ميں علم ہوا كہ جيسا كہ حديث ميں بھى وارد ہے كہ عورت كا ولى ہى عورت كا نكاح كريگا، ميں نے اپنے عالم دين جو كہ ہم سے زيادہ اسلامى احكام كا علم ركھتا ہے سے دريافت كيا كہ عقد نكاح ميں ولى حاضر نہ ہونے كى دليل كيا ہے تو اس كا جواب تھا:
" اگر دين اسلام عورت كو حق ملكيت ديتا ہے مثلا جب عورت اپنے مالى معاملات خود طے كر سكتى ہے تو پھر اسے اپنے نفس كى ملكيت كا حق كيسے حاصل نہيں ہو سكتا اور وہ اپنا نكاح خود كيسے نہيں كر سكتى ؟ "
اس حالت ميں ہم پر كيا كرنا واجب ہوگا، برائے مہربانى ہميں بتائيں ہم كيا كريں، اور ميرى شادى كا انجام اور نتيجہ كيا ہے، كيا ہم پر دوبارہ نكاح كرنا واجب ہے ؟
ميں اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہوں جس نے اس دين كو اپنى نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ذريعہ مكمل كيا، اور اس دين كو ايسا بنا ديا كہ اس ميں كوئى كمى و بيشى نہيں كى جا سكتى، آپ كو ايسا جواب دينے كى توفيق دے جو اللہ كو راضى كرنے كا باعث ہو.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحيح دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ عقد نكاح كے صحيح ہونے ميں ولى كا ہونا شرط ہے جيسا كہ درج حديث ميں وارد ہے:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں اس طرح وارد ہے:

عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے امام بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

جمہور فقھاء مالكيہ شافعى اور حنبلى سب كا مسلك يہى ہے.

اور احناف كے ہاں ولى كے بغير نكاح صحيح ہے، انہوں نے ضعيف دلائل سے استدلائل كيا ہے جو جمہور كے دلائل كا مقابلہ نہيں كر سكتے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عورت كو اپنا اور كسى دوسرى عورت كا نكاح كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ نكاح ميں وكيل بھى بنا سكتى ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم انہيں اپنے خاوندوں سے نكاح كرنے سے مت روكو "

تو يہاں اللہ تعالى نے نكاح كى اضافت عورتوں كى طرف كى ہے، اور انہيں اس سے منع كرنے سے روكا ہے، اور اس ليے بھى كہ يہ خالصتا ان كا حق ہے، اور وہ عورتيں ہي اہل مباشرت ہيں تو يہ نكاح ان سے صحيح ہوا جس طرح كہ وہ اپنى لونڈى فروخت كر سكتى ہے، اور اس ليے بھى كہ جب وہ اپنى لونڈى كو فروخت كرنے كى مالك ہے، تو يہى تصرف اپنے اور اپنے سب فائدوں ميں كر سكتى ہے، تو باقى فائدوں كى بجائے عقد نكاح ميں اس كا بالاولى زيادہ فائدہ ہے ".

ابن قدامہ نے جمہور كے دلائل ذكر كرنے كے بعد احناف كى دليل كا جواب ديتے ہوئے كہا ہے:

" رہى آيت تو اس كے عضل كا معنى يہ ہے كہ اس كى شادى نہ كرنا، يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس كا نكاح ولى ہى كريگا، اس كى دليل اس آيت كا شان نزول ہے:

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى كے بارہ ميں يہ آيت نازل ہوئى تھى جب انہوں نے اپنى بہن كا نكاح كرنے سے انكار كر ديا تو يہ آيت نازل ہوئى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بلايا اور اس كى شادى كر دى، اس كى اضافت اس عورت كى طرف اس ليے كى كہ وہ اس كا محل ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 6 ).

مزيد آپ الموسوعۃ الكويتيۃ ( 41 / 248 ) كا بھى مطالعہ كريں.

اور ان كے قياس كا يہ جواب ديا جائيگا كہ: يہ قياس نص كے مقابلہ ميں ہے، اس ليے نص كے مقابلہ ميں قياس صحيح نہيں، اسے علماء كرام اعبتار كے لحاظ سے فاسد قياس كا نام ديتے ہيں.

اہل علم كے ہاں مسلمہ اور مقررہ قواعد ميں شامل ہے كہ: " نص كے ہوتے ہوئے اجتھاد نہيں ہوتا "

دوم:

اس مسئلہ كو اجتھادى مسئلہ ديكھتے ہوئے، اور يہ كہ اس مسئلہ ميں آئمہ كا اختلاف ہے اسے مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاتا ہے: اگر آپ كے علاقے ميں حنفى مسلك پر اعتماد كيا جاتا ہے جيسا كہ انڈيا اور پاكستان وغيرہ ميں ولى كے بغير نكاح كو صحيح قرار ديتے ہيں، اور اسى طرح نكاح كرتے ہيں، تو يہ نكاح صحيح ہے اور ان كے فسخ كا مطالبہ نہيں كيا جائيگا.

ليكن يہ قرآن و حديث كے خلاف ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا واضح فرمان بھى يہى ہے كہ ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا، لہذا آپ ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں گھر ميں ہى تجديد نكاح كر ليں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر حاكم نے اس نكاح كے صحيح ہونے كا حكم لگايا يا پھر اس كا نكاح حاكم نے كيا تو اسے توڑنا جائز نہيں ہے " انتہى

اس بنا پر آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے عزيز و اقارب اور علاقے كے لوگوں كو بتائيں كہ نكاح ميں ولى كا ہونا بہت اہميت كا حامل ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے، اور عقد نكاح كے صحيح ہونے كے ليے يہى زيادہ بہتر ہے اور پھر اس طرح اختلاف سے بھى بچا جا سكتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر بھى عمل ہو جاتا ہے.

اگر آپ كے ہاں حاكم نےاس نكاح كو برقرار ركھا ہے تو دوبارہ نكاح كى ضرورت نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب