الحمد للہ.
اول:
وقتى طور پرحمل كو روكنے كے ليے كوئى بھى وسيلہ استعمال كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں صحت كا خيال ركھا جائيگا كہ وہ وسيلہ عورت كى صحت پر اثرانداز نہ ہو، اور اس عورت كے ليے مانع حمل وسيلہ استعمال كرنا جائز ہے جو حمل كو برداشت نہيں كر سكتى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" كسى شرعى مصلحت كى خاطر وقتى طور پر مانع حمل اسباب استعمال كرنا جائز ہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 9 / 434 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر حمل كو منظم كرنا يا حمل ميں تاخير كرنے كا سبب عورت كى صحت كى بنا پر ہو كہ مثلا عورت خاص حالت ميں حمل اور ولادت كى طاقت نہيں ركھتى يا پھر بيمارى كى بنا پر اس كے ليے حمل و ولادت مشكل ہے تو وقتى طور پر حمل كو روكنے كے ليے كوئى دوائى وغيرہ استعمال كرنے ميں كوئى مانع نہيں، تا كہ اس كى حالت اچھى ہو جائے اور اس كے ليے حمل و ولادت ميں مشقت نہ ہو " انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوازن ( 20/ 89 ).
دوم:
يہ عورت استحاضہ ميں ہو، اور اسے اپنى ماہوارى كے سابقہ ايام كا علم ہو تو اس كا حكم يہ ہے كہ: وہ سابقہ ماہوارى كے ايام ميں نماز روزہ ترك كريگى، اور جب ماہوائى كى مدت گزر جائے تو وہ غسل كر كے نماز اور روزہ كى پابندى كريگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسى كو خون جارى ہو جائے تو وہ نماز روزہ كى ادائيگى كيسے كريگى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس طرح كى عورت جسے خون جارى ہو جائے اس كا حكم يہ ہے كہ وہ اپنى سابقہ عادت ماہوارى كے ايام ميں نماز روزہ ترك كريگى، يعنى اس حالت سے پہلے جتنے ايام ماہوارى آتى تھى اتنے دن نماز روزہ كى ادائيگى نہيں كريگى اگر اس كى عادت يہ تھى كہ مہينہ كے ابتدا ميں اسے چھ يوم تك ماہوارى آتى تھى تو وہ ہر مہينہ كے ابتدائى چھ ايام ميں نماز روزہ ترك كريگى، اور جب مدت پورى ہو جائے تو وہ نماز روزہ كى باپندى كريگى.
اس طرح كى عورت كى نماز كى كيفيت يہ ہوگى كہ وہ اپنى شرمگاہ كو اچھى طرح صاف كر كے دھوئےگى اور وضوء كر كے نماز ادا كريگى، جب نماز كا وقت ہو جائے تو وہ ايسا كرے اس سے قبل نہيں، بلكہ وقت ہونے كے بعد دھوئے اور وضوء كرے پھر نماز ادا كر لے.
اور اسى طرح اگر وہ فرائض كے اوقات كے علاوہ نوافل ادا كرنا چاہتى ہو تو بھى ايسا ہى كرے، اس حالت ميں اور مشقت ہونے كى بنا پر ايسى حالت والى عورت كے ليے ظہر اور عصر كى نماز اكٹھى كرنا جائز ہے، اور مغرب اور عشاء بھى اكٹھى كركے ادا كر سكتى ہے.
تا كہ وہ دونوں نمازوں كے ليے ايك ہى بار شرمگاہ دھو كر وضوء كرے، يعنى پانچ بار كى بجائے تين بار كرے، ايك بار تو ظہر اور عصر دونوں اور دوسرى بار مغرب اور عشاء دونوں كواكٹھا ادا كرنےكے ليے اور تيسرى بار فجر كى نماز ادا كرنے كے ليے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 11 / 220 ).
سوم:
آپ نےسوال ميں بيان كيا ہے كہ يہ عورت خون جارى ہونے كى مدت كے دوران نماز روزہ ادا كرتى رہى ہے، اس كے بارہ گزارش يہ ہے كہ حيض كى حالت ميں تونماز صحيح نہيں اور نہ ہى اس پر نماز قضاء لازم ہے، كيونكہ حائضہ عورت نماز كى قضاء نہيں كرتى.
رہے روزے تو ماہوارى كى حالت ميں روزے ركھنا بھى صحيح نہيں، ليكن اس پر ان روزوں كى قضاء لازم ہوگى، اس نے سولہ روزوں كى قضاء بھى كى ہے، اس ليے اگر تو يہ ايام حيض تھے يا پھر اس سے زائد تو اس نے اس پر جو واجب تھا اس كى ادائيگى كر دى ہے اس سے زائد اس پر كچھ لازم نہيں اور اگر اس كے ماہوارى كے ايام اس سے زائد تھے تو جتنے ايام باقى ہيں وہ ان كى بھى قضاء ميں روزے ركھے گى.
واللہ اعلم .