اتوار 19 شوال 1445 - 28 اپریل 2024
اردو

سلام کرنے اور جواب دینے کا افضل ترین طریقہ

سوال

میں سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے طریقے کے متعلق جاننا چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سلام اور اس کا جواب کس طرح منقول ہے؟ اور کیا سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ کہنا ثابت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سلام کرتے ہوئے مسلمان صرف" السلام علیکم" کہہ سکتا ہے، اور اگر "ورحمۃ اللہ" بھی ساتھ ملا لے تو یہ افضل ہے، اور اگر "وبرکاتہ" کا اضافہ بھی کر لے تو یہ سلام کرنے کے سب سے افضل ترین الفاظ ہیں۔

اسی طرح سلام کے جواب میں وہی الفاظ کہہ دے جو سلام میں تھے تو یہ جائز ہے، اور اگر مذکورہ اضافوں کے ساتھ کہے تو یہ افضل عمل ہے، اس طریقے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا
ترجمہ: جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم بہتر الفاظ میں اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی الفاظ لوٹا دو۔ [النساء: 86]

ایسے ہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بالا خانے میں تشریف فرما تھے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "{ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ } کیا عمر اندر آ سکتا ہے؟۔ " اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (5203) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو کہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2721)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

ایسے ہی سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا : ” السلام علیکم “ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” دس ۔ “ [یعنی دس نیکیاں] پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے کہا : ” السلام علیکم ورحمۃ اﷲ “ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” بیس ۔ “ پھر ایک اور آیا تو اس نے کہا : ” السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ “ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا جواب عنایت فرمایا اور وہ بیٹھ گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” تیس “۔ اس حدیث کو ابو داود: (5195) اور ترمذی : (2689) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ جبریل آپ کو السلام علیک کہہ رہے ہیں۔) تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: { وعليه السلام ورحمة الله وبركاته } اس حدیث کو امام بخاری: (3045) اور مسلم : (2447) نے روایت کیا ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ سلام کی کیفیت کے متعلق باب میں کہتے ہیں:
"سلام کرنے والا { السلام عليكم ورحمة الله وبركاته } جمع کی ضمیر استعمال کر سکتا ہے چاہے مخاطب ایک شخص ہی کیوں نہ ہو۔
اس کے جواب میں مخاطب شخص { وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته } یعنی جواب کے شروع میں واؤ عاطفہ لگائے گا۔" ختم شد
"رياض الصالحين" (ص 446)

سلام کرتے ہوئے اور سلام کے جواب میں "ومغفرتہ" کے الفاظ بعض روایات میں آتے تو ہیں لیکن وہ روایات صحیح ثابت نہیں ہیں، اس حوالے سے وارد احادیث میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1-سہل بن معاذ بن انس اپنے والد معاذ سے بیان کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، اس میں سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث جیسے ہی الفاظ ہیں، تاہم اس میں اضافہ ہے کہ: چوتھا شخص بھی داخل ہوا اور اس نے داخل ہو کر کہا: { السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ومغفرته } تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چالیس) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا: (نیکیاں اسی طرح بڑھتی ہیں۔) ابو داود: (5196) لیکن اس حدیث میں موجود اضافہ {ومغفرته} کو ابن العربی مالکی، نووی، ابن قیم، ابن حجر، اور البانی رحمہم اللہ جمیعا نے ضعیف قرار دیا ہے۔

چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث صحیح ثابت نہیں ہے، اس میں تین علتیں ہیں:
پہلی: اس کا راوی ابو مرحوم عبد الرحیم بن میمون ہے جو کہ قابل حجت نہیں ہے۔
دوسری: اس روایت میں سہل بن معاذ ہے وہ بھی سابقہ راوی جیسا ہی ہے۔
تیسری: اس روایت کے ایک راوی سعید بن ابو مریم یقین کے ساتھ روایت بیان نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ: مجھے لگتا ہے کہ میں نے نافع بن یزید سے سنا تھا۔" ختم شد
ماخوذ از: "زاد المعاد في هدي خير العباد" (2/417 ، 418)

مزید کے لیے دیکھیں: "السلسلة الضعيفة" (5433)

2- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا کرتا تھا: { السَّلامُ عَلَيْكَ يا رسول الله } تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے جواب میں کہا کرتے تھے: { وَعَلَيْكَ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه وَمَغْفِرَتُه وَرضْوَانُه } اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ انہیں جو سلام کا جواب دیتے ہیں وہ کسی اور کو نہیں دیتے!؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میرے لیے اس عمل میں کیا رکاوٹ ہے؟ اسے تو دس سے بھی زیادہ لوگوں کا اجر مل جاتا ہے!) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
اس حدیث کو ابن سُنی نے "عمل اليوم والليلة" (235) میں روایت کیا ہے لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے، اسے ابن قیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" (2/418) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "فتح الباري" (11/6) میں یہ کہتے ہوئے ضعیف قرار دیا ہے کہ:
"اس روایت کو ابن السنی نے اپنی کتاب میں انتہائی کمزور سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔" ختم شد

3- سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں سلام کہتے تو ہم جواب میں { وعليك السلام ورحمة الله وبركاته ومغفرته} کہا کرتے تھے۔ ) اس حدیث کو امام بیہقی نے " شُعَب الإيمان " ( 6 / 456 ) میں روایت کیا ہے لیکن اسے بایں الفاظ ضعیف قرار دیا کہ: "اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو ہم اس کے قائل ہوتے ، لیکن اس کی امام شعبہ تک سند میں ایسے راوی ہیں جو کہ قابل حجت نہیں ہیں۔"

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک اور روایت جو کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، اس روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔" ختم شد
"فتح الباري" (11/6)

اس بنا پر سلام کرنے کے بہترین الفاظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہیں۔

جبکہ سلام کا جواب دینے کے بہترین الفاظ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب