الحمد للہ.
اول:
نكاح صحيح ہونے كے ليے دو عادل مسلمان گواہوں كا ہونا شرط ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" دو مسلمان گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا، چاہے خاوند اور بيوى دونوں مسلمان ہوں، يا پھر خاوند اكيلا مسلمان ہو امام احمد نے يہى بيان كيا ہے، اور امام شافعى كا بھى ايك قول ہے..... كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 7 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
دوم:
نماز كى فرضيت كا اقرار كرتے ہوئے نماز ترك كرنے والا شخص جمہور فقھاء احناف شافعى اور مالكى حضرات كے مسلك ميں فاسق ہے، اور امام احمد اور جمہور سلف صحابہ اور تابعين كے مسلك ميں كافر ہے، اور دلائل بھى اسى قول پر دلالت كرتے ہيں.
اس كى مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 5208 ) اور ( 83165 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر نكاح ميں اس كى گواہى صحيح نہيں كيونكہ وہ عادل نہيں ہے چاہے اسے كافر قرار ديا جائے يا فاسق وہ عادل نہيں ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
دين كا التزام كرنے اور نماز پنجگانہ كے پابند شخص نے ايك مسلمان عورت سے شادى كى اور عقد نكاح ميں ايك گواہ ايسا بھى تھا جو نماز ادا نہيں كرتا، اور ہو سكتا ہے كبيرہ گناہ مثلا شراب نوشى كا بھى مرتكب ہو، تو كيا اس طرح كى حالت ميں شرعى طور پر يہ نكاح صحيح ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ عقد نكاح كے وقت بہت سارے نماز افراد موجود تھے اور انہوں نے عقد نكاح ہوتے ہوئے خود ديكھا ہے تو خاوند اور بيوى كے مابين اس نكاح كا حكم كيا ہوگا، اور كيا انہيں دوبارہ نكاح لكھانا ہوگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب عقد نكاح ميں ولى كے ايجاب يعنى ميں نے تجھ سے اپنى بيٹى كى شادى كى اور خاوند كے قبول كرنے كے وقت صرف دو گواہوں كے علاوہ كوئى اور نہ ہو اور ان گواہوں ميں ايك نماز ادا نہيں كرتا تو پھر عقد نكاح دوبارہ كرنا ہوگا؛ كيونكہ وہ گواہ عادل نہيں ہے؛ اس ليے كہ عقد نكاح ميں ولى كے ساتھ دو عادل گواہ ہونا ضرورى ہے.
اس ليے عقد نكاح كے وقت ولى نے كہا ميں نے تجھ سے اپنى بيٹى كى شادى اور خاوند نے اسے قبول كيا تو صرف دو گواہ موجود تھے جن ميں ايك فاجر جس فجور معروف ہو يا كوئى گواہ كافر مثلا نماز ادا نہ كرتا ہو تو پھر نكاح كى تجديد ہو گى " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 45 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے شادى كرنا چاہى اور جب عقد نكاح كا وقت ہوا تو دو گواہ لائے گئے ليكن پتہ چلا كہ ان ميں سے ايك شخص تو نماز ادا نہيں كرتا تو اس نكاح كا حكم كيا ہو گا ؟
شيخ كا جواب تھا:
" يہ عقد نكاح صحيح نہيں؛ كيونكہ جو نماز ادا نہيں كرتا اس كى گواہى صحيح نہيں ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اس ليےگواہ كا عادل ہونا شرط ہے، اور جو نماز ادا نہيں كرتا وہ عادل نہيں، اور نہ ہى مسلمان ہے اس ليے اس كى گواہى صحيح نہيں ہو گى " انتہى
ماخوذ از: شيخ صالح الفوزان كى ويب سائٹ.
سوم:
جب نكاح كا اعلان ہو گيا اور لوگوں كو اس نكاح كا علم ہو چكا تو اكثر اہل علم كے ہاں يہ خاص گواہى كے حصول سے مستغنى ہو جائيگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بعض علماء كا كہنا ہے: شرط يہ ہے كہ يا تو گواہ ہوں يا پھر اعلان ہو، يعنى نكاح كا اظہار اور وضاحت كى جائے، اور جب اعلان كر ديا جائے تو يہ كافى ہے؛ كيونكہ يہ چيز نكاح مشہور ہونے ميں بالغ حيثيت ركھتا ہے، اور زنا سے مشتبہ ہونے سے بھى امن ميں زيادہ بليغ ہے؛ كيونكہ اس ميں گواہ كا نہ ہونا ممنوع ہے، اس ليے كہ ہو سكتا ہے كوئى شخص كسى عورت سے زنا كر كے بعد ميں دعوى كر دے كہ اس نے اس سے شادى كى تھى حالانكہ حقيقت ميں ايسا نہيں تھا.
اس ليے اس سبب كى بنا پر نكاح ميں گواہى كى شرط ضرورى ہے، ليكن جب نكاح كا اعلان ہو اور لوگوں ميں اس نكاح كى شہرت ہو جائے تو يہ ممانعت بالاولى ختم ہو جائيگى شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا بھى اختيار يہى ہے.
بلكہ ان كا كہنا ہے: نكاح كا اعلان كيے بغير گواہوں كا موجود ہونے سے نكاح صحيح ہونا محل نظر ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نكاح كا اعلان كرنے كا حكم ديا اور فرمايا ہے:
" نكاح كا اعلان كرو "
اور اس ليے بھى كہ خفيہ نكاح سے فساد اور خرابى كا خدشہ ہے، اگرچہ وہ گواہوں كى موجودگى ميں ہو كيونكہ كوئى ايك ايسا كر سكتا ہے كہ زنا كرے اور پھر كہے ميں نے تو اس عورت سے شادى كى تھى اور اس پر دو جھوٹے گواہ بھى پيش كر دے اللہ اس سے محفوظ ركھے "
پھر كہتے ہيں:
چار حالات ہيں:
پہلى حالت:
نكاح ميں گواہ بھى ہوں اور اس كا اعلان بھى كيا جائے، اس نكاح كے صحيح ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اور نہ ہى كوئى اس كو غير صحيح كہتا ہے.
دوسرى حالت:
گواہ تو ہوں ليكن اعلان نہ كيا جائے، اس نكاح كے صحيح ہونے ميں نظر ہے؛ كيونكہ يہ حكم " نكاح كا اعلان كرو " كے مخالف ہے.
تيسرى حالت:
نكاح كا اعلان ہو ليكن گواہ نہ ہوں، تو راجح قول كے مطابق يہ نكاح جائز اور صحيح ہے.
چوتھى حالت:
نہ تو گواہ ہوں اور نہ ہى اعلان، تو يہ نكاح صحيح نہيں ہے؛ كيونكہ اس ميں گواہ بھى نہيں ہيں اور نہ ہى اعلان نكاح پايا جاتا ہے" انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 95 ).
مزيد تفصيل اور معلومات كے ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ كى كتاب " الاختيارات الفقھيۃ ( 177 ) كا مطالعہ كريں.
اس قول كى بنا پر اگر تو نكاح كا اعلان اور شہرت ہوئى ہے تو نكاح صحيح ہے؛ كيونكہ ان شاء اللہ اعلان نكاح كافى ہے، ليكن اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ گواہى نكاح فارم پر دستخط كرنے والوں پر ہى منحصر نہيں، بلكہ جو شخص عقد نكاح كے وقت حاضر و موجود تھا مثلا نكاح رجسٹرار يا قريبى رشتہ دار مثلا آپ كا والد وغيرہ تو وہ بھى اس نكاح كا گواہ ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر وہ گواہى كے لائق تھا.
شافعيہ كے مسلك ميں اور امام احمد كےايك قول كے مطابق خاوند كے والد كى گواہى صحيح ہے "
ديكھيں: حاشيہ البجيرمى ( 3 / 396 ) اور الانصاف ( 8 / 105 ).
مزيد فائدہ كے ليے سوال نمبر ( 124678 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چہارم:
مسلمان كے بارہ ميں حتى الامكان حسن ظن كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اسے سلامتى پر محمول كرنا چاہيے، آپ نے بيان كيا ہے كہ لڑكى كا والد جمعہ كى ادائيگى كرتا ہے اور روزے بھى ركھتا ہے اور آپ كو يہ علم نہيں كہ وہ نماز پنجگانہ ادا كرتا ہے يا نہيں، اگر تو آپ كے پاس ايسا كوئى ثبوت نہيں جس سے يہ علم ہو كہ وہ نماز ادا نہيں كرتا تو اصل ميں نمازى ہے، تو اس طرح اس كا نكاح ميں ولى بننا صحيح ہے، اور آپ كو اس كى نماز كے متعلق دريافت نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى آپ كے لائق ہے كہ ايسا كريں؛ كيونكہ اس ميں سوء ظن اور آپس ميں بغض و عداوت پيدا كرنا ہے.
واللہ اعلم .