اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

انيميا المنجليۃ (Sickle cell anemia ) مرض كے شكار كى شادى كا حكم

133329

تاریخ اشاعت : 19-02-2011

مشاہدات : 6448

سوال

اسلام ميں انيميا المنجليۃ جيسى بيمارى كے شكار مرد و عورت كى شادى كا كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

انيميا المنجليۃ يہ ايك قسم كى وراثى بيمارى ہے جو خون كے سرخ سيل ميں تبديلى سے پيدا ہوتى ہے اور خون كے سرخ سيل ہلالى شكل ميں ہو جاتے ہيں، جو آكسيجن كى كمى سے ہوتى ہے.

اس كى علامات يہ ہيں:

ـ سرخ خونى خلايا كى عمر كم ہو جاتى ہے جس كے نتيجہ ميں خون كى مستقل كمى كا شكار ہو جاتا ہے، اور اس طرح نشو و نما ميں نقص پيدا ہوتا ہے، اور نشاطات كى قدرت و استطاعت نہيں رہتى.

ـ جوڑوں اور ہڈيوں ميں شديد درد رہتا ہے، اور بعض اوقات تو دماغ اور پھيپھڑوں كو ملنے والى خونى خوراك بھى بند ہو جاتى ہے.

ـ ہڈيوں كھائى جاتى ہيں، اور خاص كر گھٹنوں كى چكنى ہڈي، اور بعض اوقات تلى بڑى ہو جاتى ہے جس كى بنا پر وہ اپنا كام كرنا چھوڑ ديتى ہے.

ـ يہ بيمارى اپنے ساتھ خونى خلايا كو ٹوٹ پھوٹ كا شكار كر ديتى ہے، اور يہ غالبا جلن كى بنا پر ہوتى ہے، اور كافى حد تك آنكھيں زرد ہو جاتى ہيں، اور ہيموگلبين ميں شديد كمى واقع ہو جاتى ہے، جو خون لگانے تك جا پہنچتى ہے.

اس بيمارى كے ميں مبتلا وہ شخص جس پر يہ علامات ظاہر نہ ہوں اس كا صحيح و تندرست شخص سے شادى كرنا جائز ہے اور اولاد بھى پيدا كر سكتا ہے.

ليكن اس بيمارى ميں متبلا شخص كا كسى صحيح شخص سے شادى كرنا خطرناك ہے، كيونكہ اس كے بچوں كو بھى يہ بيمارى لاحق ہو سكتى ہے.

مزيد آپ درج ذيل لنك كى سرچ كريں:

https://bit.ly/3AWyX1U 

دوم:

بلاشك و شبہ نكاح كے مقاصد ميں نيك و صالح اولاد پيدا كرنا اور امت محمديہ ميں اضافہ كرنا شامل ہے، جيسا كہ حديث ميں بھى وارد ہے:

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كيا:

مجھے ايك حسب و نسب اور خوبصورت عورت ملى ہے ليكن وہ بچے پيدا نہيں كر سكتى، كيا ميں اس سے شادى كر لوں؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہ كرو.

پھر وہ شخص دوبارہ آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے منع كر ديا، اور پھر جب تيسرى بار آيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو، اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ امتوں ميں كثرت چاہتا ہوں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس كى تكميل يہ ہے كہ يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب ايسى اولاد پيدا كى جائے تو صحيح و تندرست ہو اور شرعى امور سرانجام دے سكے.

جب رشتے كرنے والے دونوں مرد و عورت كو علم ہو كہ ان كى شادى كے نتيجہ ميں بيمار اور مرض كا شكار اولاد پيدا ہو گى تو ان كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ اس وقت شادى نہ كريں تا كہ متوقع خرابى پيدا نہ ہو، اور امت مسلمہ كو ضرر و نقصان كم ہو سكے، اور بيمارى اور مريض اولاد كى ديكھ بھال ميں انہيں جو مصيبت و تنگى اٹھانا پڑے وہ اس سے بھى محفوظ رہيں.

ليكن جواز كے اعتبار سے اس طرح كے مرض كے شكار افراد كے ليے شادى كرنا صحيح اور جائز ہے، چنانچہ اس مرض كا شكار شخص صحيح فرد سے شادى كر سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ جب وہ قبول كر لے اور انہيں اولاد نہ پيدا كرنے پر متفق ہونے كا حق حاصل ہے.

اور كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ اس مرض كا دوسرے كے علم ميں لائے بغير شادى كرے، بلكہ اسے واضح كرنا ہو گا كيونكہ دھوكہ دينا اور چھپانا حرام ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب