جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

كيتھولك مذہب كى عورت خاوند كو ناپسند كرنے كى وجہ سے طلاق ليكر مسلمان مرد سے شادى كرنا چاہتى ہے

134045

تاریخ اشاعت : 16-02-2010

مشاہدات : 7556

سوال

ميرے عزيز بھائيو ميں كيتھولك مذہب ركھنے والى عورت ہوں اور كئى برس سے شادى شدہ بھى ميرى خوبصورت سى دو بيٹياں بھى ہيں، تقريبا پانچ برس سے ميں اپنے خاوند كو پسند نہيں كرتى، ليكن طلاق كے متعلق كبھى سوچا بھى نہيں تھا، كيونكہ ميرا دين اس كى اجازت نہيں ديتا.
پچھلے برس ميں اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھ سكى اور ايك چھوٹى عمر كے مسلمان نوجوان كے ساتھ حرام تعلقات قائم كر بيٹھى، اور اس بنا پر كہ وہ ہمارے ليے ايك فليٹ كرايہ پر لے ميں نے اس كے ساتھ عرفى نكاح پر دستخط بھى كر ديے، ليكن جب اس كے خاندان والوں كو علم ہوا تو اس نے وہ كاغذ پھاڑ ديا، ہمارے يہ تعلقات صرف ايك ہفتہ رہے اور پھر ميں نے توبہ كر لى، اور وہ بھى اس سے توبہ كر چكا ہے.
اور اس نے اب ايك مسلمان لڑكى سے منگنى كر لى ہے، اور مجھے بھى پچھلے ماہ ايك اچھا سا مسلمان شخص ملا جو شادى شدہ بھى ہے اور اس كے دو بچے بھى ہيں، اور بعض اوقات ہمارى ڈيوٹى اكٹھى ہوتى ہے اور اچھے دوست بھى ہيں اور ہم اس دوسرے كے بہت قريب بھى ہيں، ليكن ابھى تك كوئى حرام كام نہيں كيا، ميرے كچھ سوالات ہيں:
1 ـ كيا ميرى پہلى عرفى شادى ابھى تك موجود ہے، ہم نے دو گواہوں اور ايك وكيل كى موجودگى ميں شادى كى تھى، ليكن مجھے يہ علم نہ تھا كہ يہ حقيقى شادى ہے اور پھر ميں شادى شدہ بھى تھى ؟
2 ـ اب ميں اپنے خاوند سے طلاق لينا چاہتى ہوں، كيونكہ ميں اس سے محبت نہيں كرتى اور نہ ہى خاوند اور اپنى بچيوں كے ساتھ مسلسل جھوٹ بول سكتى ہوں ؟
3 ـ اگر مجھے طلاق ہو جاتى ہے تو كيا ميرے ليے اس اچھے مسلمان دوست سے اسلامى شادى كر كے دوسرى بيوى بننا جائز ہے، اور عدت كى مدت كتنى ہو گى ؟
4 ـ اس نے مجھے بتايا ہے كہ اس كى پہلى بيوى كہتى ہے اگر اس نے دوسرى شادى كى تو وہ اس سے طلاق لے كر بچوں سميت چلى جائيگى اس ليے ميں آپ سے شادى نہيں كر سكتا، تو كيا اس كى پہلى بيوى كو ايسا كرنے كا حق حاصل ہے ؟
ميں نے چاہتى كہ ميرى وجہ سے اسے تكليف اور اذيت سے دوچار ہونا پڑے كہ وہ اپنے خاندان سے دور رہے، اور خاندان كو ملنے نہ جائے، ميں نہ تو اس سے مال حاصل كرنا چاہتى ہوں اور نہ ہى ميں اس كے خاندان كا خسارہ اور نقصان كرنا چاہتى ہوں اور نہ ہى اس كى پہلى بيوى كے ساتھ كوئى برائى كرنا چاہتى ہوں، اور نہ ہى ميں اس پر غيرت ركھتى ہوں بلكہ ميں تو اس كى دوسرى بيوى بن كر اس كے ملك ميں بھى رہنے كے ليے تيار ہوں اور بعض اوقات اپنے ملك آ جايا كرونگى تا كہ اپنى بيٹيوں كو مل ليا كروں. اگر آپ اس موضوع ميں ميرا تعاون كرينگے تو ميں آپ كى مشكور رہوں گى، اللہ تعالى آپ كى حسنات و نيكيوں ميں اضافہ فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كا اسلام پر بھروسہ كرنے اور اسلام كے احكام كے متعلق جاننے پر ہم آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں، اور ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ كا اسلام پر بھروسہ كرنا دين اسلام قبول كرنے كا باعث اور سبب بن جائے، اور آپ دين اسلام كے احكامات پر عمل كر كے اپنى زندگى بسر كريں، ہميں آپ كى كلام سے يہ محسوس ہوا ہے كہ آپ خسن اخلاق كى مالك ہيں، اور ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ كا يہ حسن خلق اللہ كے ساتھ بھى حسن اخلاق كے ساتھ پيش آنے كا سبب ہو گا، اور وہ اس طرح كہ آپ اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت كريں، اور جس دين پر اللہ تعالى راضى ہے اور اسے مكمل كيا ہے آپ بھى اسے ہى اختيار كرينگى اللہ تعالى نے اس دين كى حفاظت بھى فرمائى ہے اور اس ميں كسى بھى قسم كى كمى و زيادتى نہيں ہونے دى، اور اسے تغير و تبدل سے محفوظ ركھا ہے.

دوم:

عرفى شادى جس نے آپ ك واس نوجوان كے ساتھ مربوط كيا يہ باطل و ناجائز ہے، كيونكہ آپ شادى شدہ تھيں اور شادى شدہ عورت كا كسى دوسرے شخص سے نكاح كرنا صحيح نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى نے حرام كردہ عورتوں كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:

تم پر حرام كى گئيں ہيں تمہارى پھوپھياں اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى لڑكياں اور بہن كى لڑكياں اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہو اور تمہارى وہ پرورش كردہ لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں، تمہارى ان عورتوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ كيا ہو تو تم پر كوئى گناہ نہيں اور تمہارے صلبى سگے بيٹوں كى بيوياں اور تمہارا دو بہنوں كا جمع كرنا، ہاں جو گزر چكا سو گزر چكا، يقيناً اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے، اور حرام كى گئى ہيں شوہر والى عورتيں النساء ( 23 - 24 ).

يعنى شادى شدہ عورتيں بھى حرام ہيں جو اپنے خاوند كے نكاح ميں ہوں.

ہميں تو اس جاہل قسم كے مسلمان شخص سے بہت تعجب ہو رہا ہے كہ وہ اپنے دين سے اس حد تك جاہل ہے، چنانچہ اس شادى كى كوئى قيمت نہيں، يہ بالكل ايسے ہى ہے جيسى شادى ہوئى ہى نہيں، اور جس دن سے يہ عقد ہوا تھا اسى وقت سے باطل ہے.

اس بنا پر آپ اس نوجوا نكى بيوى ہى نہيں ہيں.

سوم:

ہمارے دين اسلام جائز ہے كہ بيوى اگر اپنے خاوند كو ناپسند كرتى ہو تو اس كے ليے طلاق طلب كرنا جائز ہے، اور وہ اس كے ساتھ ازدواجى زندگى نہيں گزار سكتى، اور اگر وہ اس كے ساتھ رہتى ہے تو خاوند كے حقوق كى ادائيگى ميں كوتاہى كا باعث بنے گى، اور اس كے ساتھ اكثر جھگڑا ہونے لگےگا، اور اگر وہ اس كو طلاق نہيں ديتا تو پھر بيوى كے ليے ايك اور بھى حل ہے جسے ہمارے دين اسلام ميں خلع كا نام ديا گيا ہے، اور بيوى اپنے خاوند كو مہر واپس كرے گى پھر خاوند كو اسے طلاق دينے كا كہا جائيگا، تا كہ اس نقصان كو ختم كيا جا سكے جو خاوند كے ساتھ رہنے سے اسے ہو رہا ہے.

يہ حكم ہمارى شريعت كے محاسن ميں شامل ہوتا ہے، اور اس طلاق كى مشروعيت كى بنا پر ہمارى شريعت پر بہت طعن كيا جاتا ہے، حالانكہ واقع يہ ثابت كرتا ہے كہ يہ دونوں چيزيں ہمارى شريعت كے محاسن ميں شامل ہوتا ہے.

چنانچہ بعض اوقات تو ان جھگڑوں ميں طلاق بہترين حل ہوتا ہے جن ميں صلح نہيں ہو سكتى.

جس طرح ہمارى شريعت اسلاميہ نے مرد كے ليے اس كا حل طلاق بنايا ہے، تو اسى طرح عورت كے ليے اس كا حل خلع بنايا ہے.

چنانچہ آپ شريعت اسلاميہ كے ان محاسن پر غور كريں اور اپنى حالت كے متعلق سوچيں كہ آپ اس وقت اپنے خاوند كے ساتھ رہنے پر مجبور ہيں، كيونكہ آپ كا دين طلاق كى اجازت نہيں ديتا، لہذا آپ يہ ديكھيں كہ كونسى چيز حكمت و عقل كے قريب ہے ؟

اور ہم اميد كرتے ہيں كہ يہ چيز آپ كو اسلام كے متعلق مزيد تحقيق كرنے كى ترغيب دےگا، تا كہ آپ دين اسلام كى امتيازات سے واقف ہو سكيں، اور يہ جان ليں گى يہى دين اسلام ہى دين حق ہے، چنانچہ دين اسلام كے قبول كرنے كے ليے آپ كا شرح صدر ہوگا.

چہارم:

جب آپ كو اپنے خاوند سے طلاق ہو جائے تو پھر آپ اس مسلمان شخص يا پھر كسى اور كے ساتھ شادى كر سكتى ہيں، ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ يہ شادى عدت گزرنے كے بعد ہو.

اور آپ كى عدت طلاق كى ابتدا سے تين حيض ہے، يا پھر اگر آپ حاملہ ہوں تو وضح حمل، ہم يہاں تنبيہ كرتے ہيں كہ عدت كے دوران شادى كرنا ہمارى شريعت باطل ہے اور صحيح نہيں.

پنجم:

بيوى كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے خاوند كو دوسرى يا تيسرى يا چوتھى شادى كرنے سے روكنا جائز نہيں، اللہ سبحانہ و تعالى نے مرد كے ليے چار عورتوں سے شادياں كرنا مباح قرار ديا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى كے ليے كسى دوسرى عورت كو طلاق دينے كى شرط ركھنے سے منع فرمايا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2727 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

يعنى جب مرد دوسرى شادى كرنا چاہے تو اس دوسرى بيوى كے ليے پہلى بيوى كو طلاق دينے كى شرط ركھنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس طرح وہ اپنى بہن پر زيادتى كا باعث بنےگى.

اور اسى طرح پہلى بيوى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ خاوند سے دوسرى بيوى كو طلاق دينے كا مطالبہ كرے، يا پھر بالكل اسے شادى كرنے ہى نہ دے.

اس مسئلہ ميں ہمارى شريعت مطہرہ كا حكم يہى ہے، ليكن اكثر لوگ اپنى جہالت يا دينى احكام كى تعظيم نہ كرنے كے باعث اس حكم كى مخالفت كرتے ہيں، اللہ تعالى انہيں ہدايت نصيب كرے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى پريشانى دور فرمائے، اور آپ كو اس كى توفيق دے جسے اللہ پسند كرتا ہے اور جس پر راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب