جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

ایک سجدہ سہو کرنے والے کی نماز کا حکم

سوال

ہم نے مغرب کی نماز ادا کی تو امام درمیانی تشہد بیٹھنا بھول گیا لیکن ابھی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے والا ہی تھا کہ اسے یاد آ گیا اور اس نے درمیانی تشہد مکمل کیا، پھر سلام سے قبل اس امام نے ایک سجدہ سہو کیا، اور نماز کے بعد ہماری گفتگو ہوئی اور بتلایا کہ سہو کے لیے دو سجدے ہوتے ہیں، ایک سجدہ نہیں، اب ہمیں نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ اب کیا کریں؟ تو ہم دوسرا سجدہ سہو کیے بغیر مجلس بر خواست کر کے چل دئیے، اب ہم پر کیا لازم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پہلا تشہد بھولنے والا شخص دو حالتوں سے خالی نہیں ہو گا:

پہلی حالت:

کھڑے ہونے کے درمیان اسے یاد آئے، یعنی ران اور پنڈلی دونوں کھڑے ہونے کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں لیکن ابھی مکمل کھڑا نہ ہوا ہو تو یاد آئے، تو ایسی صورت میں وہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے، اپنی نماز مکمل کرے، اور سجدہ سہو کرے۔

دوسری حالت:

مکمل طور پر کھڑا ہونے کے بعد اسے یاد آئے چاہے ابھی اس نے قراءت شروع کی ہو یا نہ کی ہو، تو اس صورت میں واپس تشہد میں نہیں بیٹھے گا؛ کیونکہ وہ تشہد سے مکمل طور پر جدا ہو چکا ہے، اور تشہد کے بعد والے رکن میں منتقل ہو گیا ہے۔

مزید کے لیے آپ شیخ ابن عثیمین کی "الشرح الممتع" (3/131) دیکھیں۔

دوم:

امام پر ایک سجدہ سہو کی بجائے دو سجدہ سہو کرنا واجب تھا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی اپنی نماز کے بارے میں شک کرے تو وہ درستگی تلاش کرے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے اور پھر سلام پھیرے ، پھر دو سجدے سہو کے لیے کرے۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (401) اور مسلم : (572)نے روایت کیا ہے۔

اس لیے سجدہ سہو کے لیے دو سجدے ہوتے ہیں، ایک سجدہ نہیں ہوتا۔

سوم:

جب نمازی بھول کر صرف ایک سجدہ سہو کرے تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہے، چنانچہ امام ہو یا مقتدی دونوں کی نماز صحیح ہے، اس کا حکم وہی ہے جو سجدہ سہو مکمل بھول جانے والے کا ہے۔ آپ سوال نمبر: (257 ) کا جواب ملاحظہ کریں اس جواب میں درمیانی تشہد بھول جانے والے کا ذکر ہے جو بعد میں سجدہ سہو بھی نہیں کرتا۔

جیسے کہ "دقائق أولي النهى" (1/217) " میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو اس کے حکم سے لا علمی کی وجہ سے چھوڑ دے، یعنی اس کے ذہن میں یہ بات ہی نہ ہو کہ کسی عالم نے نماز کے اس عمل کو واجب قرار دیا ہے تو اس کا حکم بھول جانے والے شخص کا ہی ہے، لہذا اگر اسے متعلقہ واجب کی جگہ گزرنے سے قبل علم ہو جائے تو وہ سجدہ سہو کرے گا وگرنہ نہیں، اور اس کی نماز بھی صحیح ہو گی۔" معمولی تصرف اور اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی (6/10)کے علمائے کرام کہتے ہیں کہ:
"اگر سجدہ سہو جان بوجھ کر چھوڑا ہے تو اس کی نماز باطل ہے اور اسے دوبارہ نماز ادا کرنا ہو گی، اور اگر اس نے بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے سجدہ سہو نہیں کیا تو پھر اسے دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کی نماز بھی صحیح ہے۔ " ختم شد

امام سے ہونے والی غلطی پر امام کو متنبہ کیا جائے گا تا کہ دوبارہ ایسی غلطی نہ کرے۔

چہارم:
مقتدیوں کو دوسرا سجدہ کرنا چاہیے تھا، اگرچہ امام نے سجدہ نہیں کیا تھا؛ کیونکہ ان کی نماز میں بھی کمی شامل تھی۔

جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ "المجموع "(4/65) میں کہتے ہیں:
"اگر امام سہو کے لیے صرف ایک ہی سجدہ کرے تو مقتدی دوسرا سجدہ خود ہی کر لیں اور یہ سمجھیں کہ امام صاحب دوسرا سجدہ بھول گئے ہیں، چنانچہ اگر امام عمداً یا سہوا سجدہ سہو نہ کرے تو مقتدی خود سے سجدہ سہو کرے گا یہ موقف صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے؛ کیونکہ جب امام بھول ہی گیا ہے تو مقتدی کی نماز بھی امام کے بھولنے کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے، تو اگر امام اپنی کمی پوری نہیں کرتا تو مقتدی اپنی نماز کی کمی پوری کرے گا۔" معمولی تصرف اور اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

امام نووی رحمہ اللہ آگے چل کر (4/66) مزید لکھتے ہیں:

"جب امام سجدہ سہو کرنا بھی بھول جائے تو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ہمارے فقہی مذہب میں صحیح بات یہ ہے کہ مقتدی پھر بھی سجدہ سہو کرے گا، یہی موقف امام مالک، امام اوزاعی، لیث، ابو ثور سمیت امام احمد سے ایک روایت کے مطابق منقول ہے، نیز یہی موقف ابن المنذر رحمہ اللہ نے ابن سیرین، الحکم اور قتادہ سے بھی نقل کیا ہے۔ جبکہ عطاء، حسن، نخعی، قاسم ، حماد ابو سلیمان، ثوری، ابو حنیفہ ، مزنی اور امام احمد سے دوسری روایت کے مطابق یہ ہے کہ مقتدی سجدہ سہو نہیں کرے گا۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب