اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اولاد پر کتنا خرچہ کرنا واجب ہے اوراس کی حد کیا ہے ؟

13464

تاریخ اشاعت : 25-03-2009

مشاہدات : 16798

سوال

اولاد پر خرچہ کا کیا حکم ہے اورخرچہ کی حد کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اما بعد :

علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ چھوٹے بچے جن کے پاس مال نہ ہواس وقت تک ان کا نفقہ وخرچہ والد کے ذمہ ہے جب تک وہ بالغ نہیں ہوجاتے ۔

ابن منذر رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

ہمیں اہل علم میں سے جتننے بھی یاد ہیں ان سب کا اس پراجماع ہے کہ ان بچوں کا خرچہ جن کے پال مال نہیں والد کے ذمہ ہے ، اور اس لیے بھی کہ اولادہ انسان کا ایک حصہ ہے اوروالد کے جگر کا ٹکڑا ہے ۔

لھذا جس طرح اس کا اپنے آپ اور گھروالوں پر خرچہ کرنا واجب ہے اسی طرح اپنے بعض یعنی اولاد اوراپنی اصل یعنی ماں باپ پر خرچ کرنا بھی واجب ہے ۔ دیکھیں المغنی ( 8 / 171 ) ۔

بچوں پرخرچہ کرنے میں کتاب وسنت اوراجماع دلیل اوراصل ہے ۔

کتاب اللہ کے دلائل :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اگر تمہارے کہنے سے وہی دودھ پلائيں توتم انہیں ان کی اجرت دے دو الطلاق ( 6 ) ۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے رضاعت کی اجرت والد کے ذمہ واجب کی ہے

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو دستور کے مطابق ہے البقرۃ ( 233 ) ۔

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ھند رضی اللہ تعالی عنہا کوفرمایا :

جتنا تمہیں اورتمہارے اولاد کواچھے طریقے سے کفایت کرے وہ لے لیا کرو صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5364 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1714 ) ۔

اور اجماع کی دلیل اوپر بیان کی جا چکی ہے ۔

علماء کرام کااس پر بھی اتفاق ہے کہ چھوٹے بڑے بچوں کا خرچہ اس وقت تک والد کے ذمہ ہے جب تک وہ مستغنی نہيں ہوجاتے ۔

علماء کرام اس پر متفق ہیں کہ والد پر اس بیٹے کا کوئ خرچہ لازم نہیں جس کے پاس مال ہواوروہ مستغنی ہواگرچہ وہ عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔

اوراس پر بھی متفق ہيں کہ بیٹا جب بالغ ہوجاۓ اورکمانے پر قادر ہو تووالد پر اس کا خرچہ لازم نہیں ۔

علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر بیٹا فقیر اوربالغ ہو لیکن کمانے کی قدرت نہ رکھے تواکثر علماء کرام کا خيال ہے کہ والد کے ذمہ اس کا خرچہ نہيں اس لیے کہ وہ کمائ کرنے کی قدرت وطاقت رکھتا ہے ۔

اورکچھ علماء کرام کا کہنا ہے کہ بیٹا اگر فقیر اوربالغ ہو چاہے وہ کمانے کی قدرت وطاقت رکھے والد پر اسکا خرچہ واجب ہے ۔

اس میں وہ دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمان لیتے ہیں :

( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ھند رضي اللہ تعالی عنہ کوفرمایا تھا : اپنے اوراپنے بچوں کی کفایت جتنا مال لے لیا کرو ) ۔

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان میں بالغ اورصحیح کومستثنی نہیں کیا ، اوراس لیے کہ وہ بیٹا فقیر ہے جس کی بنا پر وہ خرچہ کا مستحق ہے کہ غنی والد اس پر خرچہ کرے جیسا کہ اگر بیٹا اندھا ہو یا مستقل مریض ہو۔

شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا :

والد غنی اورمالدار اوراس کا بیٹا تنگ دست ہو تو کیا غنی والد اپنے تنگ دست بیٹے پر خرچ کرے گا ؟

توشيخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جی ہاں اگربیٹا فقیر ہواورکمائ کرنے سے عاجز اوروالد مالدار ہوتوبیٹے پربہتراوراچھے طریقےسے خرچہ کرنا لازم ہے ۔ ا ھـ یہ مختصر لکھا گيا ہے

دیکھیں مجموع الفتاوی الکبری ( 3 / 363 ) اورمجموع الفتاوی ( 34 / 105 ) ۔

علماء کرام کا اس پر بھی اختلاف ہے کہ اگر بیٹی بالغ ہوجاۓ توکیا والد کے ذمہ اس کا خرچہ ہے کہ نہیں ؟

اکثر علماء کرام کہ کہنا ہے کہ شادی تک اس پرخرچہ لازم ہے ، اوریہی قول اقرب الی الصواب ہے اس لیے کہ وہ کمائ کرنے سے عاجز ہے ، واللہ اعلم ۔

علماء کرام کے کلام کا مجمل طور پر مفہوم یہی ہے ، آپ کچھ نصوص اوران کے دلائل جن سے علماء کرام نے استدلال کیا ہے مندرجہ ذیل کتب میں دیکھ سکتے ہیں :

علماء شافعیہ : کتاب الام ( 8 / 340 )

علماء مالکیہ : المدونۃ ( 2 / 263 ) اورتبیین المسالک شرح تدریب المسالک ( 3 / 244 ) ۔

علماء حنفیہ : المبسوط ( 5 / 223 ) ۔

علماء حنابلہ : المغنی ابن قدامۃ ( 8 / 171 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد