اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دین ثابت اورمتغیرمیں تقسیم نہیں

13467

تاریخ اشاعت : 09-05-2004

مشاہدات : 5504

سوال

کیاثابت اورتغرات مین دین کی تقسیم ممکن ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اللہ تعالی کی حمدوثنااوراللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام اورجوانہیں سےدوستی کرےاس پردرودسلام کےبعد ۔۔۔۔

اس آخری دورمیں ہم یہ سنناشروع ہوئےہیں کہ کچھ لوگ یہ کہتےہیں کہ دین ثابت اورتغیرمیں تقسیم ہے ۔

جتناہمیں علم ہےاس کےمطابق تواس عبارت کااہل علم کی کلام میں وجودہی نہیں پایاجاتاکیونکہ دین سارےکاساراثابت اس لئےکہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفوت ہی دین کےکامل کرنےاوراحکام میں استقرارپیداکرنےکےبعدکیاتواب قیامت تک تغیروتبدل نہیں اورنہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدکسی کےکویہ صلاحیت حاصل ہےکہ وہ اس میں تغیروتبدل کرسکے ۔

اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

آج میں نےتمہارےلئےدین کوکامل کردیااورتم پراپناانعام بھرپورکردیااورتمہارےلئے اسلام کےدین ہونےپررضامندہوگیا ۔المائدۃ /(3)

تودین اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعداپنی رخصتوں اورعظیمتوں کے ساتھ مستقراورثابت ہوچکاہےتواس میں نہ توکسی چیزکااضافہ ممکن ہےاورنہ ہی تغییر اورنہ ہی کمی ونقص ہوسکتاہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

جس کےپاس باطل پھٹک بھی نہی سکتانہ اس کےآگےاورنہ اس کےپیچھےسےیہ خوبیوں والےاورحکمتوں والےاللہ تعالی کی طرف سےنازل کردہ ہے فصلت ۔/(42)

اوریہ کلمہ:ثابت اورمتغیر،،جوبعض طالب علموں کی زبان زدعام ہےاس سےہوسکتا ہے کہ وہ لوگ جوکہ خواہشات کےپیچھےلگےہوئےہیں وہ اسےفرصت جانیں اوریہ کوشش کریں کہ وہ احکام جوکہ ان کی رغبتوں اورخواہشات کےموافق نہیں اوراسےغنیمت جانیں ۔

اس کےمتعلق اللہ تبارک وتعالی کاارشاد ہے :

اوراگرحق ہی ان کی خواہشوں کاپیروہوجائےتوزمین وآسمان کےدرمیان ہرچیزدرہم برہم ہوجائے المومنون ۔/(71)

اوریہ کلمہ جوکہ بعض طلبہ کہتےہیں اگرچہ اسکاایک پہلوصحیح بھی ہےاس سےان کی مراداعلماءکےاجتہادات ہیں جن میں کوئی نص واردنہیں کیونکہ مجتہدکااجتہادبعض اوقات دلائل کےاعتبارسےبدل بھی سکتاہےجیسےجیسےاس کےپاس دلائل کااظہارہوگاتووہ اجتہادمیں اوقات اورمسائل کےلحاظ سےاس میں بھی تبدیلی واقع ہوگی ۔

جب میراث میں معاملہ میں عمررضی اللہ تعالی عنہ کااجتہادمختلف ہواتووہ فرمانے لگے :

( یہ وہ تھاجوہم فیصلہ کیاتھااوریہ وہ ہےجواب ہم فیصلہ کررہےہیں )۔

مجتہدکااجتہادتوصرف ایک رائےہوتی ہےاوریہ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ اللہ تعالی کاحکم ہےبلکہ ہوسکتاہےکہ وہ اللہ تعالی کےحکم کےموافق ہواوریہ بھی ہوسکتاہےکہ مخالف ہوتونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ ہرایک کی بات مانی اور ردبھی کی جاسکتی ہے ۔

اورپھرمجتہدین کااجتہادثابت اورمتغیرمیں تقسیم نہیں ہوسکتاکیونکہ وہ سب کا سب قابل تغیر ہےیہ کہ جب بھی یہ ثابت ہوجائےکہ یہ دلیل شرعی کےمخالف ہےتواس میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔

لیکن اللہ تعالی کےاحکامات اوراسکادین قابل تغییراورتبدیل نہیں توطلباءپرواجب یہ ہےکہ وہ اپنی کلام کی حفاظت کریں اورسوچ سمجھ کربولیں اوراہل اھواءاورخواہشات کے پیروکاروں اورباطل نظریات کےحامل لوگوں کےلئےکوئی رخنہ نہ چھوڑیں تاکہ وہ اسے استعمال کریں کیونکہ طلباءعلماءکی زبان بولتےہیں اوردینی معاملات میں ان کی بات بطور حجت مانی جاتی ہے ۔

اللہ تعالی ہم سب کوعلم نافع اورعمل صالح کی توفیق عطافرمائےاورہمارےنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ پررحمتوں کانزول فرمائےآمین ۔ .

ماخذ: الشيخ صالح بن فوزن الفوزان ممبر كبار علماء كميٹى سعودى عرب اور ممبر مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب