سوموار 3 جمادی اولی 1446 - 4 نومبر 2024
اردو

اسلام ميں مقتديوں كى امامت كروانے كا مقام و مرتبہ

13474

تاریخ اشاعت : 12-06-2006

مشاہدات : 5954

سوال

كيا مسجد كا تنخواہ دار امام ايك ہى وقت ميں امام اور مسجد كا چئرمين بھى ہو سكتا ہے؟
دوسرے معنوں ميں يہ كہ معاملات ميں تعارض وغيرہ، اس كى وضاحت فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ايك ہى وقت ميں مسجد كا امام اور چئرمين ہونے ميں كوئى مانع نہيں چاہے وہ ماہانہ تنخواہ دار بھى ہو؛ مسجد كا ذمہ دار امام ہى ہوتا ہے، اس كا كام صرف امامت تك ہى محدود نہيں ہوتا، كيونكہ مسجد ميں امام اس بادشاہ كى طرح ہى جو اپنے علاقے كا بادشاہ اور سردار ہوتا ہے.

ليكن اگر وہ مسجد كو صحيح طرح نہيں چلا سكتا، يا پھر وہ كسى اور كام ميں مشغول ہو اور مسجد كے سب معاملات نپٹانے مشكل ہوں تو امام كى موافقت سے مسجد كا امير كسى اور شخص كو بنانے ميں كوئى مانع نہيں، يا پھر كچھ معاملات دوسرے مقتديوں ميں تقسيم كر ديے جائيں.

اسلام ميں امامت كا مقام و مرتبہ:

اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ امامت نظام الہى ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے اس ميں مقاصد سنيہ كى طرف علمى راہنمائى كى ہے، اور قيمتى اہداف ميں حسن اطاعت اور جھادى ميدانوں ميں قائدين كى اقتدا و پيروى شامل ہيں.

اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور سب خلفاء راشدين اور امويہ عباسى حكومت ميں سے جو بھى اس طريقہ اور نھج پر چلے يہى تھا كہ گورنر اور امير ہى نماز اور جھاد كا امام ہو، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لڑائى ميں كسى كو امير بنا كر روانہ كرتے تو نمازوں ميں امامت بھى اسى كى ذمہ دارى ہوتى تھى.

اور اسى طرح جب آپ كسى كو كسى شہر كا نائب مقرر كرتے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عتاب بن اسيد رضى اللہ تعالى كو مكہ، اور عثمان بن ابو العاص رضى اللہ تعالى عنہ كو طائف، اور على اور معاذ اور ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كى يمن، اور عمرو بن حزم رضى اللہ تعالى عنہ كو نجران كا نائب مقرر كيا تھا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نائب ہى ان كو نمازيں پڑھاتا اور ان پر حدود كا نفاذ كرتا، اور اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين اور ان كے بعد اموى اور بعض عباسى خليفہ بھى اسى پر قائم رہے، كيونكہ نماز اور جھاد دين كے اہم امور ميں شامل ہيں.

معاشرے ميں امام كا كام اور عمل بہت اہم ہے، اس ميں كوئى شك نہيں اور يہ ہو بھى كيوں نہ كيونكہ وہ دين كے اہم ركن نماز ميں ان كى امامت كرواتا ہے، جو كلمہ كے بعد دين اسلام كا عظيم ترين ركن ہے، چنانچہ امام قائد ہے اور مقتدى اس كے تابع ہيں، امام اپنى جماعت كى راہنمائى كرتے ہوئے درس ديتا اور وعظ و نصيحت كرتا ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے خلفاء راشدين مسجد ميں اجتماع اور كانفرنس منعقد كيا كرتے جس ميں نمازى جمع ہوتے تا كہ مسلمان اپنے دينى اور دنياوى معاملات مشورے كر سكيں، انہيں وہاں توحيد اور فقہ سكھاتے، اور اخلاق حسنہ اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كى تعليم ديتے.

ديكھيں كتاب: احكام الامامۃ والائتمام فى الصلاۃ للشيخ منيف ( 64 ).

امام حاضر نہ ہونے والوں كا پتہ كرتا ہے كہ وہ غائب كيوں تھے، اور بيماروں كى تيماردارى كرتا، اور جو مسلمان اس كے پيچھے نماز ادا كرتے ہيں ان ميں سے ضرورتمندوں كى ضروريات پورى كرتا ہے، ان ميں سے جاہل لوگوں كو تعليم ديتا، اور غافل كو متنبہ كرتا ہے، اور بھولے شخص كو ياد دہانى كرواتا ہے اور ان كى آپس ميں صلح كرواتا، اور انہيں ايك دوسرے كے قريب كرتا، اور ان كے مابين محبت و الفت پيدا كرنے كى كوشش كرتا ہے، اور خاندانى مشكلات اور دشمنى ختم كر كے معاشرے كى اصلاح كرتا ہے، اور پڑوسيوں كى آپس ميں عداوت و دشمنى وغيرہ كو ختم كرنے كى كوشش ميں رہتا ہے.

اجمالى طور پر يہ كہ امام كى ذمہ دارى عظيم ہے، اس ليے اس كى قدر اس طرح كى جائے جس طرح قدر كرنى چاہيے، اور جماعت كے لوگوں كو چاہيے كہ وہ شرعى معاملات اور مصالح ميں اس كى مدد و تعاون كريں، اور فساد و ضرر كو ختم كرنے ميں امام كے بازو بنيں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد