الحمد للہ.
بدعت كى حقيقتا ور اس كے اصول و ضوابط معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 864 ) اور ( 205 ) اور ( 10843 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اور آب نے جو يہ ذكر كيا ہے كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے قرآن مجيد جمع كيا تھا، اس كے متعلق گزارش ہے كہ يہ بدعت نہيں بلكہ يہ سنت ہے جس پر لزوم كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" تم ميرى اور ميرى بعد خلفاء راشدين المھديين كى سنت كو لازم پكڑو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2676 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4607 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 42 ) اس حديث كو امام ترمذى نے اور امام حاكم ( 1 / 177 ) نے صحيح قرار ديا ہے اور علامہ البانى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2549 ) ميں صحيح كہا ہے، يہ حديث عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے اور يہ خليفہ راشد ابو بكر الصديق رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ميں سے ہے.
اور بدعت اسے كہا جاتا ہے كہ كسى ايسے عمل سے اللہ تعالى كا تقرب حاصل كيا جائے جس كى مثال پہلے نہ گزرى ہو، قرآن مجيد تو پہلے سے لوگوں كے سينوں ميں اور مختلف تختيوں ميں كئى ايك صحابہ كرام كے پاس جمع تھا، اور اس سارے قرآن مجيد كو ايك ہى جگہ اور ايك كتاب ميں جمع كرنا كوئى منكر كام نہيں.
زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى كو جب ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے قرآن مجيد جمع كرنے كا حكم ديا تھا تو زيد رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:
تو ميں قرآن مجيد كو اوراق اور چمڑے اور ہڈيوں اور كھجور كى چھال اور لوگوں كے سينوں وغيرہ سے جمع كرنا شروع كيا.
قاضى ابو بكر الباقلانى نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے اس فعل كى كئى ايك وجوہات بيان كى ہيں ان ميں سب سے اچھى اور بہت يہ پانچ ہيں:
اول:
رسول كريم صلى اللہ وسلم نے مصلحت كى بنا پر ايسا نہيں كيا اور ضرورت كى بنا پر ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے جمع كر ديا.
دوم:
اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ يہ صحف اولى ميں ہے اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بھى اس جيسا ہے فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى كا رسول پاك صحيفے تلاوت كرے، جن ميں صحيح اور درست احكام ہوں .
تو يہ اللہ اور اس كے رسول كى اقتداء كرتے ہوئے ہوا.
سوم:
انہوں نے اس اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان كو ثابت اور پورا كرنا چاہا:
يقينا ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں .
يہ اس كے پاس محفوظ تھا، اور اللہ نے ہميں بتايا كہ اس كے نزول كے بعد بھى اس كى حفاظت كريگا، اور اس كى حفاظت ميں يہ شامل ہے كہ اللہ تعالى نے اسے جمع كرنا صحابہ كے ليے آسان كر ديا، اور اس كى تقييد اور ضبط ميں ان سب كو جمع فرمايا كسى نے بھى اس ميں اختلاف نہيں كيا.
چہارم:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كاتبين وحى كو قرآن مجيد خود لكھاتے اور اس كى املاء كرواتے تھے، كيا كسى متصور پر اس كے دل ميں صحيح معنى مخفى ہو سكتا ہے كہ يہ اس كى كتابت اور ضبط اور صحيفہ ميں تقييد پر تنبيہ تھى، اگر اللہ كا اس كى حفاظت كا ضامن ہونے ميں امت كا كوئى عمل نہ ہوتا تو اللہ تعالى كا اس كى حفاظت كا ذمہ لينے اور بتا دينے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے نہ لكھواتے، ليكن آپ كے علم ميں تھا كہ اللہ كى حفاظت ميں شامل ہے كہ وہ اسے ہمارے ليے آسان كرے اور اس كى كتابت كى تعليم دے اور ہمارے مابين صحف ميں ضبط كروائے.
پنجم:
يہ ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دشمن كے علاقے ميں قرآن مجيد لے جانے سے منع فرمايا ہے" يہ اس كى تنبيہ ہے كہ امت ميں قرآن لكھا ہوا ہو گا اور وہ اسے اپنے ساتھ سفروں ميں لے كر جائيں گے.
ابو بكر بن العربى كہتے ہيں:
يہ سب سے واضح وجوہات ہيں.
ديكھيں: احكام القرآن ( 2 / 612 ).
اور آپ كا يہ كہنا كہ: عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اذان ميں كوئى نئى چيز اضافہ كيا تھا، اس كے متعلق ہميں تو كوئى علم نہيں، ليكن شائد آپ كا اس سے مقصد عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كا نماز جمعہ كے ليے پہلى اذان كا اضافہ ہے، اور يہ صحيح ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك ہى اذان ہوا كرتى تھى، اور جب عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كو خلافت ملى اور مدينہ ميں وسعت ہو چكى تھى اور آبادى پھيل گئى تھى تو عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے ديكھا كہ جمعہ كے ليےوقت سے قبل ايك اذان كہى جائے تا كہ لوگ جمعہ كى تيارى كر ليں اور اسے پہلى اذان كہا جاتا ہے.
سائب بن يزيد بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ابو بكر اور عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے دور ميں جمعہ كى پہلى اذان اس وقت ہوتى تھى جب امام منبر پر بيٹھ جاتا، اور جب عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كو خلافت ملى اور لوگ زيادہ ہو گئے توانہوں تيسرى اذان كا اضافہ كر ديا.
اور ايك روايت ميں ہے تو عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے پہلى اذان كا حكم ديا، اور ايك روايت ميں ہے دوسرى اذان كا عثمان رضى اللہ نے حكم ديا.
اس ميں كوئى تناقض اور منافاۃ نہيں، اسے تيسرى زيادہ كے اعتبار سے كہا گيا ہے، اور اذان اور اقامت سے مقدم ہونے كى بنا پر پہلى كہا گيا، اور دوسرى حقيقى اذان كے اعتبار سے نہ كہ اقامت ـ يہ زوراء پر كہى جاتى تھى.
ابو عبد اللہ يعنى امام بخارى كہتے ہيں كہ مدينہ كے بازار ميں زوراء نامى ايك جگہ تھى جہاں اذان ہوتى.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 870 ).
اور يہ اذان بدعت ميں شامل نہيں ہوتى بلكہ يہ خليفہ راشد عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ميں شامل ہوتى ہے جس كے التزام كا حكم ديتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميرى اور ميرے بعد خلفاء راشدين كى سنت كا التزام كرو "
پھر يہ اذان تو ايك معقول علت كے ساتھ معلول ہے اور وہ يہ كہ لوگوں كو نماز قريب ہونے كى تنبيہ كرنا، اور علم كے ليے يہ بھى ہے كہ اس اذان پر كوئى احكام مرتب نہيں ہوتے مثلا خريد و فروخت كى حرمت يا مسجد جانے كا وجوب، اور پھر عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى يہ فقہ ميں تھا كہ انہوں نے اسے مسجد ميں نہيں بلكہ بازار ميں دينے كا حكم ديا، اور اس طرح كى چيز كا زيادہ سے زيادہ صرف لوگوں كو نماز كا وقت قريب ہونے پر متنبہ كرنا، كيونكہ گھروں كى دورى كى بنا پر ايسا ہوا جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
اس ليے بيان كيا جاتا ہے كہ على رضى اللہ تعالى عنہ نے كوفہ ميں ضرورت نہ ہونے كى بنا پر اس پر عمل نہيں كيا.
واللہ اعلم .