الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو صحت و تندرستى اور شفايابى و عافيت عطا فرمائے.
دوم:
مرگى كى بيمارى ميں مبتلا شخص كے ليے شادى كرنا جائز ہے، ليكن اسے اپنى منگيتر كو اس بيمارى كے متعلق بتانا لازم ہے تا كہ وہ بصيرت پر شادى كرے، اور اسے چھپانا دھوكہ اور حرام كہلاتا ہے.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميرا بھائى مرگى كا مريض ہے، ليكن يہ جماع ميں مانع نہيں، اس نے ايك عورت كے ساتھ عقد نكاح كيا ہے، كيا اس كے ليے رخصتى سے قبل بيوى كو اس بيمارى كے بارہ ميں بتانا ضروى ہے يا نہيں ؟
شيخ حفظہ اللہ كا جواب تھا:
" جى ہاں خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كو چاہيے كہ وہ شادى سے قبل خلقى يعنى پيدائشى عيوب كے بارہ ميں بتائے، كيونكہ يہ نصيحت و خيرخواہى ميں شامل ہے، اور اس ليے بھى كہ ان ميں محبت و مودت پيدا ہونے كا باعث بنےگا، اور جھگڑے كو ختم كرنے كا باعث، اور اس طرح رخصتى كے وقت ہر ايك بصيرت اور دليل پر ہوگا، اور دھوكہ دينا اور عيب چھپانا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: المنتقى ( 3 / 159 ).
جب خاوند اس عيب كو چھپائے اور بعد ميں بيوى كو اس عيب كا علم ہو تو بيوى كو نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے.
سوم:
اولاد پيدا كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، كيونكہ نكاح كے مقاصد ميں سب سے اہم مقصد اولاد پيدا كرنا ہے، جب تك پختہ رپورٹ نہ مل جائے كہ اولاد كو بھى مرگى كا مرض لاحق ہونے كا خدشہ ہے، اور يہ تناسب بہت زيادہ ہو تو اس صورت ميں اولاد پيدا كرنے سےاجتناب كرنا چاہيے.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 111980 ) اور ( 133329 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .