جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

قرآنى آيات پر مشتمل اسٹكر وغيرہ فروخت كرنے

13648

تاریخ اشاعت : 29-03-2008

مشاہدات : 8012

سوال

منافع كمانے كے ليے قرآنى آيات كو سٹكروں اور كتب وغيرہ كے ٹائٹل پر لگانے كا حكم كيا ہے؟
يہ منافع حاصل كرنے والے منافع كو پروگرام / تنظيمات/ مدارس/ اور اسلامى تنظيموں كے تعاون ميں ديتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حصول علم كى حرص اور دعوت الى اللہ كے متعلقہ امور كا سوال كرنے پر ہم آپ كے شكر گزار ہيں، كيونكہ بعض اوقات شرعى علم كے بغير دى دعوت و تبليغ اصلاح سے زيادہ فساد كا باعث بن سكتى ہے.

ان سٹكروں وغيرہ كو فروخت كرنے كے متعلق حكم تو اس وقت آپ كے سامنے واضح ہو گا جب آپ اس طرح كى اشياء لٹكانے كا حكم معلوم كرليں گى، بلاشبہ قرآنى آيات پر مشتمل تختياں اور كپڑے وغيرہ گھروں، مدارس اور سكولوں يا پھر دوكانوں اور اكيڈمي وغيرہ ميں لٹكانے ميں كئى ايك منكرات اور برائياں اور شرعى ممانعت پائى جاتى ہيں:

1 - اكثر اور غالب طور پر نقش كردہ آيات اور رنگ برنگے نقشوں ميں بنائے گئے اذكار وغيرہ سے ديواروں كو مزين كيا جاتا ہے، اور يہ قرآن مجيد سے انحراف ہے كيونكہ قرآن مجيد تو ہدايت اور وعظ و نصيحت اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كے ليے نازل ہوا ہے، نہ كہ قرآن مجيد اس ليے نازل ہوا كہ اس سے ديواريں مزين كى جائيں، بلكہ اسے تو انسانوں اور جنوں كى ہدايت كے ليے نازل كيا گيا ہے.

2 - بہت سے لوگ اسے تبرك حاصل كرنے كے ليے لٹكاتے ہيں، اور يہ بدعت ہے، كيونكہ مشروع تبرك تو قرآن مجيد كى تلاوت ہے، نہ كہ اسے لٹكانا اور اسے الماريوں ميں اونچى جگہ ركھنا، اور اسے تختياں اور مجسموں ميں منتقل كرنا.

3 - اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے خلفاء راشدين رضى اللہ تعالى عنہم كى مخالفت ہے، كيونكہ انہوں نے ايسا نہيں كيا، اور خير وبھلائى تو ان كى اتباع و پيروى ميں ہے نہ كہ بدعات ايجاد كرنے ميں، بلكہ تاريخ اس بات كى گواہ ہے كہ اندلس اور تركى وغيرہ ميں اس طرح كى تختياں اور تزين اور مساجد اور گھروں ميں آيات كى نقش و نگارى مسلمانوں كے كمزور اور ضعف والے دور ميں شروع ہوئى.

4 - اس كو لٹكانا شرك كا وسيلہ اور ذريعہ ہے، كيونكہ بعض لوگ يہ اعتقاد ركھتے ہيں كہ اس طرح كى تختياں اور لٹكانے والى اشياء گھر اور اس ميں رہنے والوں كو ہر قسم كے شر اور آفات سے محفوظ ركھتے ہيں، اور يہ اعتقاد شركيہ اور حرام ہے، كيونكہ حفاظت تو اللہ تعالى فرماتا ہے، اور اس كى حفاظت كے اسباب ميں خشوع و خضوع اور يقين كے ساتھ قرآن مجيد كى تلاوت اور شرعى دعائيں پڑھنا ہيں.

5 - اس پر لكھنا تجارت كى ترويج اور زيادہ آمدن كے ليے قرآن مجيد كو وسيلہ بنانا، ضرورى ہے كہ قرآن مجيد كو اس طرح كى غرض سے پاك ركھا جائے، اور معلوم ہونا چاہيے كہ اس طرح كى تختياں وغيرہ خريدنے ميں اسراف اور فضول خرچى بھى ہے.

6 - ايسى بہت سى تختيوں پر سونے كا پانى پھيرا جاتا ہے، جس كى وجہ سے اس كے استعمال اور لٹكانے كى حرمت اور بھى زيادہ شديد ہو جاتى ہے.

7 - اس قسم كى بعض تختيوں ميں واضح طور پر عبث كام ہوتا ہے مثلا لپٹى ہوئى كتابت جس سے كوئى نفع حاصل نہيں ہوتا كيونكہ وہ عبارت پڑھى ہى نہيں جاتى، اور بعض ميں تو كسى پرندے كى شكل ميں يا پھر كسى سجدے ميں پڑے ہوئے شخص كى شكل ميں كتابت كى گئى ہوتى ہے، اور يہ ذى روح كى تصوير ہے جو حرام ہے.

8 - اس ميں قرآن مجيد كى آيات اور سورتوں كى اہانت و اذيت كا پہلو نكلتا ہے، مثلا ايك گھر سے دوسرے گھر ميں سامان منتقل كرتے وقت مختلف قسم كےگھريلو سامان ميں دوسرى اشياء كى طرح ہى اوپر نيچے ركھا جاتا ہے، اس كے اوپر بھى بعض اشياء ركھى جاتى ہيں، اور اسى طرح گھر كى ديواروں اور چھتوں كو رنگ كرتے وقت بھى اتارتے وقت يہى عمل ہوتا ہے، اس پر مستزاد يہ كہ بعض اوقات كسى ايسى جگہ معلق ہوتى ہيں جہاں اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كى جاتى ہے، اور قرآن مجيد كى حرمت اور اس كى عزت كا كوئى خيال نہيں ركھا جاتا.

9 - اور بعض گنہگار قسم كے لوگ اسے اس ليے معلق كرتے ہيں كہ وہ اپنے آپ كو يہ باور كرائيں كہ وہ دينى امور پر كاربند ہيں تا كہ اپنے ضمير كى ملامت ميں كمى كرسكيں، حالانكہ يہ چيز انہيں كوئى بھى فائدہ نہيں ديتى.

مختصر يہ كہ شر اور برائى كا دروازہ بند كر كے قرون اولى جس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گواہى دى كہ اس دور كے لوگ خير وصلاح اور مسلمانوں ميں سے اپنے دينى احكام اور عقائد كے اعتبار سے سب سے افضل ہونگے ان لوگوں كے طريقہ پر چلنا ضرورى ہے.

پھر اگر كوئى كہنے والا شخص يہ كہے كہ:

ہميں اس سے منع تو نہيں كيا گيا اور نہ ہى ہم اسے زينت و زيبائش بناتے ہيں، اور نہ ہى اس ميں غلو كرتے ہيں، بلكہ ہم تو مجلسوں ميں لوگوں كو ياد دہانى كرواتے ہيں.

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

جب ہم في الواقع ديكھتے ہيں تو كيا واقعتا ہم ايسا ہى پاتے ہيں كہ ايسا ہوتا ہے؟ اور كيا وہاں بيٹھے ہوئے اللہ تعالى كا ذكر كرتے ہيں يا پھر جب وہ اس كى جانب سر اٹھاتے ہيں تو معلق شدہ آيات كى تلاوت كرتے ہيں؟

واقعہ اس بات كى گواہى نہيں ديتا، بلكہ وہ تو اس كے خلاف ہے، لہذا كتنے ہى وہاں بيٹھنے والے ايسے ہوتے ہيں جن كے سروں پر يہ اشياء معلق ہوتى ہيں اور وہ جھوٹ بولتے اور كذب بيانى اور غيبت و چغلى ميں لگے ہوتے ہيں، اور ايك دوسرے سے مذاق كرتے اور برائى كرتے اور برے اقوال كہتے ہيں، اور اگر ہم يہ فرض بھى كرليں كہ كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جوبالفعل اس سے مستفيد ہوتے ہونگے، ليكن وہ بہت ہى قليل تعداد ميں ہيں، جو اس مسئلہ كے حكم ميں كوئى تاثير نہيں ركھتے.

لہذا مسلمانوں كے ليے ضرورى ہے كہ وہ كتاب اللہ كى طرف پلٹيں اور اس كى تلاوت كريں اور جو كچھ اس ميں احكامات ہيں ان پر عمل كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ قرآن كريم كو ہمارے دلوں كى بہار اور ہمارے سينوں كا نور اور ہمارے غموں كو دور كرنے والا اور ہمارى پريشانيوں كو ختم كرنے والا بنائے. آمين

ميں نے جو كلام آپ كے ليے ذكر كى ہے وہ عصر حاضر كے بڑے بڑے علماء كرام مثلا فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اور مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب اور فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كے فتاوى جات كا خصلاصہ اور اجمال ہے، جيسا كہ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كى سرابراہى ميں قائم مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے.

ديكھيں فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء فتوى نمبر ( 2078 ) اور فتوى نمبر ( 17659 ).

اور اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر يہ اسٹكرز وغيرہ فروخت نہ كريں، كيونكہ اسے فروخت كرنے كى بنا پر آپ بعض ممنوعات و محاذير ميں پڑ جائيں گے جنہيں علماء كرام نے ذكر كيا ہے، اور ہو سكتا ہے آپ كسى دوسرے كا اس ممنوعہ كام ميں پڑنے كا سبب بھى بن جائيں.

ہم اللہ تعالى سے اپنے اور تمہارے ليے ہدايت اور سيدہى راہ طلب كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد