الحمد للہ.
یہ حديث طبرانی نے الکبیر ( 10 / 215 ) میں روایت کی ہے ۔
اس کے بارہ میں ھیثمی کا قول ہے کہ :
یہ حديث طبرانی نے الکبیرمیں روایت کی ہے جس کی سند میں خالدبن یزید العمری ہے جو متھم بالکذب ہے ۔ مجمع الزوائد ( 4 / 71 ) ۔
اورابونعیم نے الحلیۃ ( 5 / 106 ) میں ایک دوسرے طریق سے اور بیھقی نے شعب الایمان ( 1 / 221 ) میں روایت کیا ہے ، جس میں عطیہ العوفی ہے جو کہ ضعیف ہے اور محمد بن مروان السدی متروک الحدیث ہے ۔
یحیی بن معین رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ نہیں ، اور ایک دفعہ یہ کہا ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں لیس بشیئ ۔
اورابراھم نے اسے کذاب قرار دیا اور السعدی نے ذاھب گیا گذرا کہا ہے ، اور امام نسائ اور ابوحاتم رازی اور ازدی کا کہنا ہے کہ یہ متروک الحدیث ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کی احادیث نہ لکھی جائيں ، اورایک جگہ سکتوا عنہ کہا ہے ، اور ابن حبان کا کہنا ہے کہ اس کی احادیث لکھنا حلال نہیں صرف اعتبار کے لیے اور کسی بھی حال میں اس سے حجت نہیں پکڑي جاسکتی ۔
دیکھیں " ميزان الاعتدال ( 6 / 328 ) اورالضعفاء والمتروکین ( 3 /98 )
اورھناد السری نے " الزھد ( 1 / 304 ) اور بیھقی نے شعب الایمان ( 1 / 221 ) میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ پرموقوف بیان کی ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .