الحمد للہ.
اول:
كمال ايمان ميں شامل ہے كہ مسلمان كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے دنياوى معاملہ ميں جو كچھ تقسيم كيا ہے يعنى روزى اور كام و ملازمت وغيرہ اس پر راضى ہو اور اسے قبول كرے اور نعمت پر شكر كى تكميل اس طرح ہوتى ہے كہ:
مسلمان شخص اپنے اوپر والے شخص كو مت ديكھے كہ جسے اللہ نے دنياوى امور ميں اس پر فضيلت دى ہے اسے ديكھتا پھر اسے ايسا نہيں كرنا چاہيے، تا كہ اسے اللہ كى نعمت كى قدر ہو سكے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى شخص اسے ديكھے جسے مال اور خلقت ميں اس پر فضيلتى دى گئى ہے تو وہ اپنے سے كم تر شخص كى طرف ديكھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6125 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ).
ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" تم اسے ديكھو جو تم سے نيچے ہے، اور اپنے سے اوپر والے كو مت ديكھو، يہ اس بات كے زيادہ لائق ہے كہ تم اپنے اوپر اللہ كى نعمت كى قدر كرو گے اسے حقير نہيں جانو گے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6490 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2963 ).
اس كا معنى يہ نہيں كہ اگر وہ اس امر بر راضى نہيں تو امر واقع كے سامنے سرتسليم خم كر دے، يا پھر دين و دنيا ميں اسے اس سے بہتر حاصل ہونا ممكن ہو تو وہ اسى پر گزارا كرے اور اس سے بہتر كى تلاش نہ كرے.
نہيں بلكہ اسے اللہ كى تقدير كو اللہ كى تقدير سے ہى ہٹانا چاہيے، تو وہ روزى كے ليے بہتر وسائل تلاش كرے، اور تقدير كو اسباب كے ساتھ دور كرے، يعنى ملازمت اور تجارت اور كام كر كے.
دوم:
والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا بہت بڑى نيكى اور اللہ كے قرب كا باعث ہے، جس سے اللہ سبحانہ و تعالى كى خوشنودى اور رضا حاصل ہوتى ہے، اور اسے دنيا و آخرت كى توفيق سے نوازا جاتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى اس كى بنا پر بندے سے تكليف و شرور اور گناہ و آزمائش دور كرتا ہے، اور اس كا علم اللہ ہى كو ہے.
اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے والد كا حق بہت بڑا بيان كيا ہے، حديث ميں اس كى تصريح كچھ اس طرح ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بيٹا اپنے باپ كا بدلہ اسى صورت ميں دے سكتا ہے كہ اگر وہ اپنے والد كو غلام پائے تو اسے خريد كر آزاد كر دے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1510 ).
امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" يعنى وہ والد كے احسان كا بدلہ اور اس كا حق اسى صورت ميں كر سكتا ہے كہ وہ اسے خريد كر آزاد كر دے "
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 10 / 153 ).
جب آپ اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك كرتے رہيں اور ان كے حق ميں كوئى كوتاہى نہ كريں تو آپ كا اپنے والد كے پاس سے نكل كر كہيں اور ملازمت اور كام تلاش كرنے ميں ان كے ساتھ قطع تعلقى ميں شامل نہيں ہوگا، خاص كر جب آپ كے بيوى بچے اس كے ضرورتمند بھى ہيں كہ آپ كوئى ايسا كام كريں جس ميں آپ كو زيادہ فائدہ ہو.
ہو سكتا ہے آپ اپنے والد صاحب كے كام كى بجائے كوئى اور كام تلاش كريں تو يہ آپ كے والد كے احساسات كو بيدار كر دے اور وہ آپ كى ضرورت محسوس كرتے ہوئے آپ كى تنخواہ ميں اضافہ كر دے، اور آپ كى معاشى حالت بہتر ہو جائے.
سوم:
آئندہ مستقبل كے بارہ ميں خوفزدہ ہونا اللہ سبحانہ و تعالى پر توكل ميں كمزورى اور ضعف كى علامت ہے، قوى ايمان والا مومن شخص تو اپنى عمر ميں سے كوئى وقت اس ليے نہيں ديتا كہ وہ آنے والے كل كى پريشانى ميں مبتلا ہو اور غم ميں پڑا رہے.
اس كا يہ معنى نہيں كہ مستقبل كى راحت كے ليے جائز اسباب بھى اختيار نہ كيے جائيں، بعض اوقات رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كے ليے پورے سال كا غلہ اكٹھا كر ليا كرتے تھے.
اس كلام سے ہمارا مقصد تو يہ ہے كہ مومن شخص ميں قوت ايمانى ہونى چاہيے جس سے وہ آئندہ مستقبل ميں پيش آنے والى پريشانى اور خوف كو ختم اور دور كر سكے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قوى اور طاقتور مومن اللہ كے ہاں ضعيف اور كمزور مومن سے بہتر اور زيادہ محبوب ہے، اور ہر ايك ميں خير پائى جاتى ہے، جو چيز تمہيں فائدہ دے اس كى حرص ركھو، اور اللہ سے مدد مانگو، اور عاجز مت ہو جاؤ.
اور اگر آپ كو كچھ ( تكليف ) ہو جائے تو يہ مت كہو كہ اگر ميں ايسے ايسے كر ليتا تو يہ ہو جاتا، ليكن يہ كہو كہ اللہ تعالى نے جو مقدر كيا تھا وہى ہو، اور اللہ نے جو چاہا كر ديا كيونكہ اگر ( لو ) شيطانى عمل كا دروزاہ كھولتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2664 ).
چنانچہ مومن شخص اپنے توكل كى بنا پر قوى و طاقتور ہوتا ہے، اور وہ اپنے خالق و مالك اللہ سبحانہ و تعالى كى مدد و تعاون كر كے قوى ہوتا ہے، مسلمان شخص جو كمزورى اور ضعف يا پھر خوف محسوس كرتا ہے وہ تو صرف شيطانى وسوسہ اور چال ہوتى ہے.
اس ليے مومن شخص پر واجب ہے كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كر كے اور اللہ كى مدد طلب كرتے ہوئے اللہ پر حس توكل كے ساتھ اس وسوسہ كو دور كرے.
اس ليے آپ جو كام بھى كرنا چاہتے ہيں اس ميں اللہ تعالى سے استخارہ كريں، اگر اس كام كے ليے آپ كا شرح صدر ہو اور وہ كام آپ كے ليے آسان ہو جائے تو آپ اس كام كو كر ليں اور اس ميں كسى بھى قسم كا تردد مت كريں، اور اللہ سے مدد طلب كرتے ہوئے كام شروع كر ديں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 20088 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چہارم:
سامان اور اشياء منتقل كرنے ميں بطور ڈرائيور كام كرنا كوئى گندا اور برا عمل نہيں، اور نہ ہى يہ كام كسى شخص كے ليے عيب كہلاتا ہے، چاہے آپ كے ملك ميں يہ كام دوسروں ملكوں سے آنے والے ملازمين كے ساتھ مخصوص ہے.
چرواہے كا كام كرنے سے اكثر لوگ پسند نہيں كرتے حالانكہ انبياء و رسولوں نے يہ كام كيا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے جتنے بھى انبياء مبعوث كيے سب نے بكرياں چرائى ہيں "
صحابہ كرام نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے بھى ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں، ميں اہل مكہ كى چند قيراط كے عوض بكرياں چرايا كرتا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2143 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے ہى روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" زكريا ( عليہ السلام ) بڑھئى تھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2379 ).
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے قرآن مجيد ميں بتايا ہے كہ داود عليہ السلام لڑائي ميں استعمال كى جانے والى درع بنايا كرتے تھے، اور يہ چيز اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں سكھائى تھى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ہم نے پہاڑ داود ( عليہ السلام ) كے تابع كر ديے جو ان كے ساتھ تسبيح كرتے تھے، اور پرندے بھى، اور ہم كرنے والے تھے
اور ہم نے اسے تمہارے ليے لباس بنانے كى كاريگرى سكھائى تا كہ لڑائى كے ضرر سے تمہارا بچاؤ ہو، كيا تم شكر گزار بنو گے الانبياء ( 79 - 80 ).
بلكہ ہو سكتا ہے آپ نے جو كام كرنے كى نيت كر ركھى ہے وہ كمائى اور آمدنى ميں سب سے بہتر ہو؛ كيونكہ يہ آپ كے ہاتھ كى كمائى ہوگى، اور پھر حديث ميں وارد ہے كہ:
خالد بن معدان مقدام رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنے ہاتھ سے كام كرنے والى كى كمائى سے بہتر كسى كى كمائى نہيں ہے، اور پھر اللہ كے نبى داود عليہ السلام تو اپنے ہاتھ كى كمائى سے كھايا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1966 ).
اس ليے ميرے بھائى ميرى آپ كو يہى نصيحت ہے كہ:
آپ اپنے والد سے بہتر اور اچھے طريقہ سے بات كريں كہ جب آپ اپنا كام پورى ديانتدارى سے كر رہے ہيں اور اس ميں كوئى كوتاہى نہيں كرتے تو وہ آپ كى تنخواہ ميں اضافہ كر كے آپ كى حالت سدھارے، اور اس سلسلہ ميں آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا بھى كريں كہ وہ آپ كے والد كا آپ كے ليے شرح صدر كر دے، اور صحيح راہ دكھائے.
اور اگر وہ يہ قبول نہ كريں اور آپ كو كوئى ايسى ملازمت اور كام مل جائے جو آپ كے ليے كافى ہو تو آپ كے ليے كوئى دوسرا كام كرنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ ڈرائيور كا كام ہو يا پھر كوئى اور تا كہ آپ اپنى معاشى حالت كو درست كر سكيں.
اور ايسا كرنا قطع رحمى نہيں كہلائيگا، اور جب ڈرائيورى كے كام ميں كوئى حرام يا شبہ والى چيز شامل نہيں ہى تو پھر آپ اس كو ہيچ مت تصور كريں اور اسے اختيار كرنے ميں ہچكاہٹ كا شكار نہ ہوں، كيونكہ آدمى كے ليے بہتر اور اچھى كمائى وہى ہے جو وہ اپنے ہاتھ سے كما كر كھاتا ہے.
اور اگر آپ كو كوئى ايسا كام ملتا ہے جس پر آپ كا والد اور بھائى بھى موافق ہوں تو ہمارى رائے يہى ہے كہ آپ وہ كر ليں، تو اس طرح آپ كے ليے اپنے خاندان والوں كى رضامندى اور كام دونوں كو جمع كر ليں گے.
يہ بھى ممكن ہے كہ آپ كا ڈرائيورى اختيار كرنا آپ كى اولاد كے ليے رشتہ داروں ميں حرج كا باعث بنے جسے آپ دور نہ كر سكيں، اس ليے آپ ان نفسياتى امور كو ذرا غور سے ديكھيں.
رہا شرعى طور پر جائز ہونے كے اعتبار سے تو يہ جائز ہے اور فى ذاتہ اس كام ميں كوئى عيب نہيں، اور نہ ہى يہ كام ہيچ شمار ہوتا ہے، ليكن ہمارى رائے ہے كہ آپ اپنے خاندان والوں كى خوشى كا بھى خيال كريں، اور جس ماحول ميں رہتے ہيں اس كے عرف كو بھى مدنظر ركھيں كيونكہ يہ اہم ہے، اور پھر آپ ان كى مخالفت بھى نہيں كرنا چاہتے، بلكہ آپ كوئى ايسا كام چاہتے ہيں جس سے آمدنى ہو اور آپ كى معاشى حالت بہتر ہو جائے.
اس ليے آپ كوئى ايسا كام تلاش كريں جو آپ كے ماحول كے مناسب ہو، اور اگر ممكن ہو سكے تو آپ اپنے والد كے ساتھ كيے ہوئے كام ميں تجربہ سے بھى مستفيد ہوں، اور تجارت كريں اميد ہے كہ آپ كے ليے يہى مناسب ہوگا.
ب ـ اللہ پر حسن توكل كرتے ہوئے آپ مستقبل كے بارہ ميں خوف كو دور كر ديں، اور اللہ كى طرف رجوع كرتے ہوئے كثرت سے گريہ زارى كريں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى آپ كو كافى ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو عافيت سے نوازے اور آپ كے رزق ميں وسعت پيدا فرمائے، اور آپ سے خوف و خدشات كو دور كرے، اور آپ كے والد كا شرح صدر كرے تا كہ وہ آپ كى حالت كو سدھارنے كا باعث بنے.
واللہ اعلم .