اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

زکاۃ میں نقدی کے بدلے اشیائے ضرورت خرید کر دینا جائز ہے؟

138684

تاریخ اشاعت : 08-05-2016

مشاہدات : 18370

سوال

اللہ تعالی نے ہمارے لیے اپنی کتاب کریم میں زکاۃ کے آٹھ مصارف بیان کر دیے ہیں، تو کیا درج ذیل سرگرمیاں زکاۃ کے مصارف میں آتی ہیں:
غذائی پیکٹ تقسیم کرنا، سردیوں میں کمبل تقسیم کرنا، غریب لوگوں کے گھروں تک پانی کی پائپ لائن بچھانا، لکڑی کی چھتیں بنوانا، یتیم اور غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادی کیلئے امداد دینا، مریضوں کیلئے طبی سہولیات اور امداد پیش کرنا۔
ان تمام کاموں کیلئے ہوتا یوں ہے کہ ایک معتمد خیراتی ادارے کو زکاۃ کی رقم دے دی جاتی ہے، اور پھر یہ خیراتی ادارہ مذکورہ تمام خدمات سر انجام دیتا ہے، یہ بات واضح رہے کہ یہ ادارہ امداد دینے سے پہلے مطلوبہ شخص کی مالی جانچ پڑتال کرتا ہے اور پھر امداد دیتا ہے، ہمیں آپ یہ بتلائیں کہ مذکورہ خدمات زکاۃ کا مصرف ہیں یا نہیں؟ اور کیا اس طرح سے زکاۃ کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہوگی ، یا ایسے زکاۃ کی ادائیگی کرنا مطلوب ہی نہیں ہے؟
اللہ تعالی آپکو مسلمانوں کیلئے مزید مفید اقدامات کرنے کی توفیق دے، جزاکم اللہ خیراً

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نقدی کی زکاۃ نقدی کی صورت میں ہی ہونی چاہیے، چنانچہ راشن اور دیگر سامان  کی صورت میں زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے۔

زکاۃ ادا کرنے والے کی یہ ذمہ داری ہے  کہ زکاۃ کے مستحقین تک اسے پہنچائے، تاہم اسے زکاۃ کی رقم کو اِدھر اُدھر کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی اپنی مرضی سے زکاۃ کے مستحق لوگوں کی ضرورت و حاجت کا تعین کر سکتا ہے، بلکہ زکاۃ کی رقم  مستحق غریبوں کو دے دی جائے گی، انہیں اپنی ضروریات کا  علم ہوتا ہے وہ خود پوری کر لیں گے۔

یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ نقدی ہاتھ میں ہو تو کچھ بھی خرید سکتا ہے، لیکن اگر سامان اور راشن کی شکل میں زکاۃ ہو تو عین ممکن ہے کہ راشن وغیرہ کی ابھی اسے ضرورت نہ ہو، اس لیے غریب شخص کو رقم حاصل کرنے کیلئے راشن کم قیمت میں فروخت کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا زکاۃ کی رقم کو راشن وغیرہ کی شکل میں فقراء کو دینا  جائز ہے؟ "
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے زکاۃ اس صورت میں نقدی کی شکل میں ہی دی جائے گی" انتہی
" اللقاء الشهري " (41/12)

اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"نقدی کی زکاۃ نقدی کی شکل میں ہونا لازمی ہے، اور راشن وغیرہ کی شکل میں اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب غریبوں کی طرف سے اس چیز کا مطالبہ کیا جائے، اور وہ کہیں کہ:  اگر آپ کے پاس پیسے ہوں تو میرے لیے فلاں فلاں چیزیں خرید لینا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" انتہی
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (18/303)

دوم:

اگر کسی مخصوص غریب شخص کو دوا  یا غذا کی ضرورت ہو یا کسی اور چیز کا محتاج ہو ، لیکن یہ بات واضح ہو کہ اگر اسے نقدی کی صورت میں زکاۃ دی گئی تو پیسے برباد کر دے گا، یا مصلحت کا تقاضا ہو کہ مذکورہ غریب شخص کو نقدی نہ دی جائے، تو ایسی صورت میں کچھ علمائے کرام نے نقدی کے بدلے اشیائے ضرورت خرید کر دینے کو جائز قرار دیا ہے۔

اس کی صورتیں یہ ہیں کہ:
غریب شخص پاگل ہو، یا کم عقل ہو  جس کی وجہ سے پیسے کا صحیح استعمال نہ کر سکتا ہو، یا فضول خرچ ہو، یا پیسے کو غیر مفید اشیاء میں برباد کرنے کا دھنی ہو  جس کی وجہ سے بعد میں بھوک و فاقے تک نوبت پہنچ جائے ۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتےہیں:
"[گائے، بکری، اور فصل وغیرہ کی زکاۃ]بغیر کسی ضرورت اور مثبت مصلحت   کے نقدی کی صورت میں دینا ممنوع ہے۔۔۔ کیونکہ اگر مطلق طور پر ان چیزوں کی قیمت لگا کر جائز قرار دے دیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ مالک  گھٹیا چیزوں کی قیمت لگا دے، یا کم قیمت لگائے؛ [قیمت لگا کر زکاۃ ادا نہ کرنے  کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ] زکاۃ اصل میں ہمدردی  پر مبنی ہے، اور یہ مال کی مقدار اور جنس  میں ہی معتبر ہے، تاہم کسی ضرورت یا مثبت مصلحت کی بنا پر قیمت کی صورت میں زکاۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى" ( 25/82 )

شیخ ابن باز رحمہ اللہ  اپنے فتاوی (14 / 253) میں کہتے ہیں:
"اگر زکاۃ کے مستحق  لوگوں کی مصلحت کو سامنے رکھا جائے تو نقدی رقم کی بجائے  سامان، کپڑے، اور راشن وغیرہ خرید کر دیا جا سکتا ہے، اور اس کیلئے اشیائے ضرورت کی قیمت کو مد نظر رکھا جائے گا، مثال کے طور پر زکاۃ کا مستحق شخص : پاگل ہو، یا کم عقل ہو، یا ذہنی  توازن درست  نہ ہو، اور یہ خدشہ ہو کہ اگر رقم اسے دی جائے گی تو صحیح جگہ صرف نہیں کر سکے گا، تو ایسی صورت میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اسے راشن خرید کر دیا جائے، یا زکاۃ کی قیمت کے برابر کپڑے لیکر دیے جائیں، یہ موقف اہل علم کے صحیح ترین اقوال کے مطابق ہے" انتہی

تاہم اس کیلئے افضل یہی ہے کہ وہ غریب لوگوں سے اشیائے ضرورت خریدنے کی ذمہ داری خود ہی لے لے۔

چنانچہ  شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی گھرانے کے افراد غریب ہوں، اوراگر انہیں نقدی کی صورت میں  زکاۃ دی جائے تو خدشہ ہے کہ اسے غیر ضروری اشیاء و عیش پرستی میں اڑا دیں گےتو  ہم ان کیلئے اشیائے ضرورت خرید کر انہیں دے دیں تو کیا یہ جائز ہے؟
اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، یعنی زکاۃ ادا کرنے والا شخص اپنی رقم کے بدلے میں  چیزیں نہیں دے سکتا، اہل علم کا کہنا ہے کہ: نقدی دینے سے  غریبوں کا زیادہ فائدہ ہوگا، کیونکہ نقدی کے ذریعے غریب لوگ اپنی ضرورت کی کوئی بھی چیز خرید سکتے ہیں،  لیکن  اشیاء کی انہیں ہو سکتا ہے کہ کبھی ضرورت نہ ہو، تو ایسی صورت میں وہ رقم حاصل کرنے کیلئے کم قیمت میں انہیں فروخت کرنے پر مجبور ہونگے۔

لیکن یہاں ایک طریقہ ہے کہ: اگر آپ کو خدشہ ہو کہ غریب گھرانے کو رقم کی شکل میں زکاۃ دینے پر وہ غیر ضروری اشیاء میں صرف کر دینگے تو آپ گھر کے سربراہ یعنی باپ، ماں، بھائی، یا چچا سے  بات کریں، اور انہیں کہیں کہ میرے پاس زکاۃ کی کچھ رقم ہے، تو آپ ہمیں اپنی ضرورت کی اشیاء بتلا دیں  میں خرید کر آپ کو دے دیتا ہوں۔
اس طریقے پر عمل کریں تو یہ جائز ہوگا، اور زکاۃ اپنی صحیح جگہ صرف ہوگی" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (18/ سوال نمبر: 643)

خلاصہ یہ ہوا کہ:
نقدی کی زکاۃ ادا کرنے کیلئے   اشیائے ضرورت دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، اور نہ ہی ایسا کرنا جائز ہے، تاہم اگر کوئی مصلحت یا ضرورت ہو تو جائز ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب