منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

شادى سے پہلے بيوى كے ليے والد كى ديكھ بھال كى شرط ركھى اور شادى ہو گئى جب دوسرى شادى كى تو پہلى بيوى نے عليحدہ گھر اور كام كاج بھى تقسيم كرنے كا مطالبہ كر ديا

138864

تاریخ اشاعت : 09-12-2009

مشاہدات : 6974

سوال

ايك شخص نے شادى سے پہلے ہونے والى بيوى كو بتايا كہ اس كا والد بيمار ہے اور اسے ديكھ بھال كى ضرورت ہے تم اس كى ديكھ بھال كروگى تو عورت نے موافقت كر لى اور اس شرط پر ان كى شادى ہوئى، اب وہ شخص دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے ليكن پہلى بيوى كہتى ہے كہ جب تم دوسرى شادى كرو گے تو ميرا حق ہے كہ ميں عليحدہ گھر طلب كروں اور والد كى ديكھ بھال بھى دونوں بيويوں ميں تقسيم كى جائيگى، اس كے متعلق آپ كى كيا رائے ہے ؟
سائل كا كہنا ہے كہ وہ ايسا مطالبہ كيسے كر سكتى ہے حالانكہ ابتدا ميں ہى والد كى ديكھ بھال كى شرط ركھى گئى تھى بلكہ اس نے تو شادى ہى اسى وجہ سے كى تھى كسى اور بنا پر نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى نے عہد اور عقد پورا كرنا واجب كيا ہے چنانچہ فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو عہد و پيمان پورے كرو المآئدۃ ( 1 ).

اور پھر عقد زواج كے معاہدے تو بالاولى پورے كرنا چاہييں چاہے يہ خاوند كى جانب سے ہوں يا بيوى كى جانب سے.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ شرطيں سب سے زيادہ پورا كيے جانے كا حق ركھتى ہيں جن سے تم شرمگاہيں حلال كرتے ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).

اس بنا پر آپ كى بيوى كو وہ شرط پورى كرنى چاہيے جو شادى سے قبل خاوند نے ركھى تھى كہ وہ اس كے والد يعنى اپنے سسر كى ديكھ بھال كرے، ـ ہميں تو يہى لگتا ہے كہ ـ بيوى كو يہ كام دونوں بيويوں ميں تقسيم كرنے كا مطالبہ كرنے كا كوئى حق نہيں؛ كيونكہ عقد نكاح ميں اس كو تقسيم كرنے كى شرط نہيں ركھى گئى، حالانكہ بيوى كو علم تھا كہ اللہ تعالى نے مرد كے ليے ايك سے زائد بيويوں سے شادى كرنا مباح كيا ہے، اور اسى طرح يہ شرط بھى نہيں ركھى گئى كہ وہ دوسرى شادى نہيں كريگا.

رہا عليحدہ گھر لينے كا مطالبہ تو اسے يہ حق حاصل ہے الا يہ كہ اگر عقد نكاح سے قبل يہ شرط ركھى گئى ہو كہ وہ اس كے گھر ميں ہى والد كى ديكھ بھال كريگى، اور والد سے عليحدہ اسے گھر نہيں ديا جائيگا، تو ـ اس صورت ميں ـ اس پر يہ دونوں شرطيں يعنى رہائش اور ديكھ بھال پورى كرنا ہونگى اور اسے عليحدہ رہائش كا مطالبہ كرنے كا كوئى حق نہ ہوگان اور نہ ہى يہ كام دونوں بيويوں ميں تقسيم كرنے كا مطالبہ كر سكتى ہے، ہاں اگر خاوند خود ايسا كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور اگر بيوى كو يہ نئى صورت حال پسند نہيں اور وہ اسے برداشت نہيں كر سكتى تو اسے خلع لينے كا حق ہے، وہ اپنا مہر خاوند كو واپس كر كے اس اسے طلاق لے سكتى ہے.

خلع كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 26247 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ہم خاوند كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنے تصرفات و معاملات ميں حكمت سے كام لے، اور پہلى بيوى كے بارہ ميں اللہ سے ڈرے اس نے اسے بطور خاوند بھى قبول كيا اور اس كے بيمار والد كى خدمتگار بھى بنى، اس كا بدلہ يہ نہيں تھا كہ اس كى سوكن لا كر اسے تكليف و اذيت سے دوچار كيا جاتا، اور اسى پر بس نہيں بلكہ يہ سوكن اس كے كام كاج ميں بھى شريك نہ ہو اس سے تو اسے اور زيادہ تكليف ہوگى، اور وہ سوكن اس سے امتيازى حيثيت حاصل كرے جس كى بنا پر پہلى بيوى كى زندگى ميں پريشانى پيدا ہو اور اس كى زندگى اجيرن ہو كر رہ جائے.

ہم اللہ كى مباح كردہ ايك سے زائد شاديوں سے نہيں روك رہے، ليكن ہم تو يہ جانتے ہيں كہ آدمى كے اخلاق حسنہ ميں يہ شامل ہے كہ جو اس پر احسان كرے اور اس سے اچھا سلوك كرے تو اس كو بھى اس كے ساتھ اچھا سلوك كرتے ہوئے اس اسے اچھى بات كہنى چاہيے اور اچھا فعل اور عمل كرنا چاہيے ہمارے خيال ميں خاوند كا دوسرى بيوى كو اپنے والد كى ديكھ بھال ميں پہلى بيوى كے ساتھ شريك نہ كرنے پر اصرار كرنا پہلى بيوى كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل نہيں ہوگان بلكہ ہونا يہ چاہيے تھا كہ وہ دوسرى بيوى كے سامنے بھى وہى شرط ركھتا جو اس نے پہلى بيوى كے ليے ركھى تھى تو اس طرح وہ انصاف پسند اور حكيم بھى بن جاتا.

بہر حال ہمارى رائے ميں بيوى كو وہ شرط پورى كرنى چاہيے جس پر اس نے نكاح كيا ہے، اور اگر وہ شرط پورى نہيں كر سكتى يا خاوند كے حقوق ادا نہيں كر سكتى تو پھر خلع لينے كا حق ركھتى ہے، اور ہمارى رائے يہ ہے كہ اس معاملہ كو بہتر انداز ميں حل كرنے اور اس سے نكلنے كے ليے وہ بہتر تصرف كرے، وہ اس طرح كہ جس طرح پہلى بيوى كے ليے شرط ركھى تھى اسى طرح دوسرى بيوى كے سامنے بھى وہى شرط ركھے ـ والد كى ديكھ بھال كرنا ـ چاہے عقد نكاح اس شرط كے بغير ہو بھى چكا ہے، اسے والد كى خدمت كرنے كے ليے بيوى كے ساتھ نرم رويہ ميں بات كرنى چاہيے كہ وہ پہلى بيوى كے ساتھ ان امور ميں شريك ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب