اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

رمضان تک زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔

سوال

میرے مال کی زکاۃ کا وقت رمضان سے قبل ہے، تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ میں زکاۃ کی ادائیگی رمضان آنے تک مؤخر کردوں، کیونکہ رمضان میں زکاۃ ادا کرنا افضل ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نصاب کے برابر مال ہونے  اور اس پر سال پورا ہونے کے بعد فوری زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے، اور زکاۃ کی ادائیگی کیلئے استطاعت کے ہوتے ہوئے زکاۃ ادا کرنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ )
ترجمہ: اور اپنے رب کی مغفرت، اور جنت کی طرف جلدی کرو، جسکی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے،جسے صرف متقین کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ آل عمران/133 .

ایسے ہی فرمایا:  ( سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ )

ترجمہ: اپنے رب کی مغفرت، اور جنت کی طرف سبقت کرو، جسکی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کے برابر ہے، جسے اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ الحديد/21

*اور اس لئے بھی کہ اگر انسان نے زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر کی تو اسے نہیں معلوم کہ اس کیلئے بعد میں کیا رکاوٹ کھڑی ہوجائے، اسے موت بھی آسکتی ہے، جس کے باعث زکاۃ اسکے ذمہ باقی رہے گی، اور انسان کیلئے تمام واجبات سے بری الذمہ ہونا ضروری ہے۔

*اسی طرح فقراء کی ضروریات زکاۃ کیساتھ پوری ہوتی ہیں، اور اگر سال پورا ہونے کے بعد بھی زکاۃ میں تاخیر کی جائے تو فقراء اور ضرورت مند لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کوئی اور راستہ نہیں ملے گا۔

مزید کیلئے دیکھیں: "الشرح الممتع "(6/187)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس کے پاس نصاب کے برابر مال ماہِ رجب میں ہوگیا تھا، اور وہ [تاخیر کیساتھ]رمضان میں زکاۃ ادا کرنا چاہتا ہے؟

تو کمیٹی نے جواب دیا:
آپ پر آئندہ سال رجب کے مہینے میں زکاۃ کی ادائیگی واجب ہے، کیونکہ آپ کے پاس رجب کے مہینے میں نصاب پورا ہوگیا تھا۔۔۔ لیکن اگر آپ قبل از وقت زکاۃ کی ادائیگی کرتے ہوئے  جس رجب میں آپ کے پاس نصاب کے برابر مال جمع ہوا ہے، اسکے بعد والے رمضان میں سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکاۃ ادا کردو، تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ کہ قبل از وقت ادائیگی کی شدید ضرورت بھی ہو، لیکن رجب میں زکاۃ کا مالی سال پورا ہونے کے باوجود اسے رمضان تک مؤخر کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ کو فوراً ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔مختصراً
فتاوى اللجنة (9/392)

ایک اور فتوی (9/395)میں ہے کہ:
"جس شخص پر زکاۃ ادا کرنا واجب تھا، اور اس نے کسی شرعی عذر کے بغیر ہی زکاۃ کی ادائیگی مؤخر کی تو اسے گناہ ہوگا، کیونکہ کتاب و سنت میں زکاۃ کا وقت آنے پر جلد از جلد  ادا کرنے کے بارے میں متعدد دلائل موجود ہیں"انتہی

جبکہ ایک اور فتوی (9/398)میں ہے کہ:
"سال مکمل ہونے کے بعد زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، الّا کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا : سال پورا ہونے پر فقراء نہیں ملے ، یا فقراء تک زکاۃ پہنچانا ممکن نہیں ہے، یا ابھی زکاۃ ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہے، جبکہ صرف رمضان میں زکاۃ ادا کرنے کی خواہش کی بنا پر زکاۃ کو مؤخر کرنا درست نہیں ہے، الّا کہ تھوڑی  سی مدت کیلئے مؤخر کیا جائے، مثلا شعبان کے دوسرے حصے میں زکاۃ واجب ہونے کا وقت ہو، تو ایسی صورت میں رمضان تک مؤخر کرنا جائز ہے"انتہی
واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب