جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نصف شعبان كى فضيلت ميں علامہ البانى رحمہ اللہ كى صحيح قرار دى گئى احاديث كو ہم بيان كيوں نہيں كرتے ؟

140084

تاریخ اشاعت : 07-08-2010

مشاہدات : 10938

سوال

جب آپ نے نصف شعبان كى فضيلت ميں ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث:
" اللہ تعالى نصف شعبان كى رات اپنى سارى مخلوق كو بخش ديتا ہے سوائے مشرك اور .... "
كى تصحيح كے متعلق سوال كا جواب ديا ہے تو ـ اللہ آپ كو بركت عطا فرمائے ـ آپ نے اس حديث كے بارہ ميں يہ ذكر نہيں كيا كہ علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے، جيسا كہ ميں نے ايك ويب سائٹ پر پڑھا ہے.
آپ كے منھج اور علمى امانت كى بنا پر ميرا آپ پر زيادہ اعتماد ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ كيا واقعى علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے ؟
كيونكہ آپ اپنے فتاوى جات ميں تو علامہ البانى رحمہ اللہ كى رائے بيان كرتے ہيں، تو يہاں آپ نے ان كى رائے بيان كيوں نہيں كى ؟
كيا علامہ البانى رحمہ اللہ نے بالكل اس حديث كو صحيح نہيں كہا ؟
اور اس ويب سائٹ پر اس حديث كى صحت كے بارہ ميں لكھا گيا وہ غلط ہے يا كيا ہے ؟
يہ علم ميں رہے جيسا كہ ميں نے پڑھا ہے كہ صحيح الجامع حديث نمبر ( 1819 ) ميں يہ حديث موجود ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، اس كے متعلق معلومات فراہم كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم اپنى ويب سائٹ پر اعتماد كرنے پر آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ آپ كو ہمارے متعلق حسن ظن ركھنے كى توفيق دے، اسى طرح يہ بھى دعاء كرتے ہيں كہ وہ اس ويب سائٹ كو فائدہ مند بنائے، اور اس ويب سائٹ كے ذمہ داران كو جزائے خير عطا فرمائے.

يہ كسى پر مخفى نہيں كہ ہم غالبا علامہ البانى رحمہ اللہ كى تصحيح اور تضعيف پر اعتماد كرتے ہيں؛ ليكن بعض اوقات ايسا ہوتا ہے كہ ہم كسى حديث كے متعلق سرچ كرتے ہيں تو علامہ البانى كى بجائے كسى اور عالم دين كا حكم بھى پاتے ہيں اور بعض اوقات اس معين حديث ميں دوسرے عالم دين كا حكم ہمارے نزديك راجح ہوتا ہے.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ كچھ ايسے اصول ہوں جو شيخ رحمہ اللہ كى عدم متابعت كو راجح كرتے ہوں، اور بعض اوقات ہم علامہ البانى رحمہ اللہ كے حديث كے حكم كى شہرت اور اس كى مخالفت كى كمى ديكھتے ہيں تو ہم اسے بيان كر كے اس پر تعليق ذكر كرتے ہيں.

اور بعض اوقات علامہ البانى رحمہ اللہ كے حكم كے مخالفين كى كثرت ديكھتے ہيں تو ہم علامہ البانى رحمہ اللہ كے حكم كو ذكر كرنے كا اہتمام نہيں كرتے، اور نہ ہى اس پر تعليق لگاتے ہيں؛ اور صرف ان كے مخالف علماء كا كلام بيان كرنے پر اكتفا كرتے ہيں.

يہاں اس حديث كے بارہ ميں علامہ البانى رحمہ اللہ كا حكم ذكر نہ كرنے ميں بھى يہى چيز كارفرما ہے، اور ہم نے ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كا قول نقل كيا ہے كہ اكثر علماء كرام نے نصف شعبان كى فضيلت كى احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے.

يہاں ايك اہم فائدہ كى طرف متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ: شيخ البانى رحمہ اللہ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كو ضعيف قرار دينے كى ہى رائے ہے، اور يہ اس كے موافق ہے جو ہم نے ذكر كيا ہے كہ اس كى سند ضعيف ہے، ليكن ہم نے اسے نقل نہيں كيا كيونكہ شيخ البانى رحمہ اللہ سب طرق كو ملا كر اس حديث كى تصحيح كے قائل ہيں.

رہا ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كا تو يہ حديث ابن لھيعۃ زبير بن سليم عن ضحاك بن عبد الرحمن عن ابيہ كے طريق سے بيان كرتا ہے وہ كہتے ہيں كہ ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا كہ " .... "

اسے ابن ماجہ ( 1390 ) اور ابن ابى عاصم اللالكائى نے روايت كيا ہے.

ميں كہتا ہوں:

" اس كى سند ابن لھيعۃ اور عبد الرحمن جو ابن عرزب ضحاك كا والد ہے كى وجہ سے ضعيف ہے، اور يہ مجہول ہے، اسے ابن لھيعۃ كى روايت ميں ابن ماجہ نے ساقط كيا ہے.

ديكھيں: السلسلۃ الصحيحۃ ( 3 / 218 ).

شيخ البانى رحمہ اللہ نے حديث كے طرق اور شواہد بيان كر كے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1144 ) ميں خلاصہ يہ بيان كيا ہے كہ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث صحيح ہے.

ليكن ہمارے نزديك شيخ رحمہ اللہ كى بات راجح قرار نہيں پائى، اور ہم ان طرق كو ايك دوسرے كى تقويت كا باعث نہيں سمجھتے، ہم نے اپنے اس جواب كے آخر ميں شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كى تحرير كى طرف اشارہ كيا ہے جو انہوں نے نصف شعبان كا جشن منانے كے بارہ ميں لكھى ہے:

وہ كہتے ہيں:

" جمہور علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ نصف شعبان كى رات جشن منانا بدعت ہے، اور اس كى فضيلت كے متعلق سارى احاديث ضعيف ہيں، اور بعض موضوع ہيں، اس پر متنبہ كرنے والوں ميں حافظ ابن رجب بھى شامل ہيں جنہوں نے " لطائف المعارف " ميں اس كى طرف متنبہ كيا ہے " انتہى

اس ميں ہميں تو يہى راجح لگا ہے، اور اس طرح كے معاملہ ميں كسى حديث كو صحيح يا ضعيف كہنا ايك اجتھادى مسئلہ ہے، جس پر عالم دين كے ہاں اپنے ہاں راجح پر عمل كرنا ہے اور اس ميں طالب علم اہل علم كے اقوال ميں سے جو اس كے ہاں راجح ہو اس كى متابعت كرےگا، اور مخالف پر انكار نہيں ہونا چاہيے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 113687 ) كے جواب كا مطالعہ كريں اس ميں علامہ البانى رحمہ اللہ كے بارہ ميں بہت اہم فوائد بيان كيے گئے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب