بدھ 3 جمادی ثانیہ 1446 - 4 دسمبر 2024
اردو

كيا شہيد كا نماز جنازہ ادا كيا جائےگا ؟

14012

تاریخ اشاعت : 19-04-2008

مشاہدات : 6959

سوال

كيا كفار كے ساتھ معركوں ميں شہيد ہونے والے مسلمانوں كى نماز جنازہ ادا كى جائےگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شھيد وہ ہے جو كفار كے ساتھ لڑتے ہوئے اور اس كے سبب سے مرجائے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ طبع الكويت ( 26 / 272 ).

جمہور علماء كرام كا قول ہے كہ اس كى نماز جنازہ ادا نہيں كى جائيگى، يہ امام مالك، امام شافعى،اور امام احمد سے صحيح روايت ميں قول يہى ہے.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 334 ).

اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شھداء احد كى نماز جنازہ ادا نہيں فرمائى تھى"

ديكھيں: صحيح بخارى شريف حديث نمبر ( 1347 ).

اور اس ليے بھى كہ نماز جنازہ كى حكمت يہ ہے كہ سفارش كى جائے، اور شھيد كى قرض كے علاوہ ہر چيز معاف كر دى جاتى ہے، ( لھذا وہ سفارش كا محتاج نہيں ہے )، صرف قرضہ اس كے ذمہ باقى رہ جاتا ہے.

شيخ عبد العزيزبن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جو شھداء معركہ ميں فوت ہوتے ہيں ان كى نماز جنازہ مطلقا مشروع نہيں، اورنہ ہى انہيں غسل ديا جائےگا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شھداء احد كى نہ تو نماز جنازہ ادا كى اور نہ ہى انہيں غسل ديا"

اسے بخارى نے صحيح بخارى حديث نمبر ( 1347 ) ميں جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 13 / 162 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( شھيد ) كى كوئى بھى نماز جنازہ ادا نہيں كرےگا، نہ تو عام لوگوں ميں سے كوئى شخص اور نہ ہى امام اور امير وغيرہ، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شھداء احد ميں سے كسى ايك كى بھى نماز جنازہ ادا نہيں كى تھى، اور اس ليے بھى كہ نماز جنازہ كى حكمت سفارش كرنا ہے،كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص بھى فوت ہو اور اس كى نماز جنازہ ميں چاليس ايسے شخص ہوں جو اللہ تعالى كے ساتھ كچھ شرك نہ كرتے ہوں تو اللہ تعالى ان كى سفارش قبول كرتا ہے"

اور شھيد كى قرض كے علاوہ ہر چيز معاف كردى جاتى ہے؛ كيونكہ قرض شھادت سے ساقط نہيں ہوتا بلكہ وہ اس ميت كے ذمہ باقى رہتا ہے، اگر ميت كا تركہ ہو اسے ادا كيا جائےگا، اور اگر تركہ ميں چھوڑا تو اگر اس ميت نے قرض ادا كرنے كى نيت كر ركھى تھى تو اللہ تعالى اس كى جانب سے ادا كرے گا.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 367 ).

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ شھيد كى نماز جنازہ ادا كرنا مشروع ہے - ليكن واجب نہيں - يہ امام احمد سے ايك روايت ہے.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 334 ).

اس كى دليل مندرجہ ذيل احاديث ميں ہے:

1 - شداد بن ھاد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك اعرابى شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےپاس آ كر ايمان قبول كيا، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع كر لى، پھركہنے لگا: ميں آپ كے ساتھ ہجرت كرتا ہوں، پھر وہ كچھ دير ركے، اور پھردشمن كى لڑائى كے ليے اٹھ كھڑے ہوئے، تو اس شخص كو اٹھا كر لايا گيا تو اسے تير لگا ہوا تھا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے جبہ ميں كفن ديا، اور پھر آگے بڑھ كر اس كى نماز جنازہ پڑھائى... "

اسے نسائى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 82 ) ميں صحيح قرار ديا ہے..

2 - عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معركہ احد كے دن حمزہ رضى اللہ تعالى عنہ كے متعلق حكم ديا تو انہيں ايك چادر كے ساتھ ڈھانپ ديا گيا، اور پھر ان كى نماز جنازہ پڑھائى تو اس ميں نوتكبيريں كہيں، اور پھر باقى شھداء كو لايا جاتا اور ان كے ساتھ ان كى بھى نماز جنازہ ادا كرتے"

اسے طحاوى نے معانى الآثار ( 1 / 290 ) ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 82 ) ميں حسن كہا ہے.

اور اس قول كو اختياركرنے والوں ميں علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى بھى شامل ہيں.

ديكھيں: احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 81 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد