الحمد للہ.
اول:
طلاق بائن والى عورت كو طلاق كے بعد درج ذيل حقوق حاصل ہونگے:
1 ـ المتع: يعنى فائدہ يہ وہ مال يا سامان ہے جو خاوند اپنى بيوى كو طيب خاطر كے ليے ادا كرتا ہے؛ كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اور تم انہيں كچھ نہ كچھ فائدہ پہنچاؤ خوشحال اپنے اندازے سے اور تنگدست اپنى طاقت كے مطابق دستور كے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائى كرنے والوں پر لازم ہے البقرۃ ( 236 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
طلاق واليوں كو اچھى طرح فائدہ دينا پرہيزگاروں پر لازم ہے البقرۃ ( 241 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 126281 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
2 ـ مہر مؤجل: اگر اتفاق ہوا ہو كہ كچھ مہر بعد ميں ديا جائيگا.
3 ـ شخصى قرضے: ہو سكتا ہے وہ قرضے ازدواجى زندگى ميں بيوى كى جانب سے خاوند كو ديے گئے ہوں.
دوم:
اور بيوى نے جو مال خاوند كو ديا يا پھر گھر كا سامان خريدنے ميں صرف كيا تو اس كى كئى حالتيں ہيں:
1 ـ يہ مال خاوند كو بطور قرض ديا گيا ہو، تو اس صورت ميں خاوند كو يہ مال واپس كرنا واجب ہوگا.
2 ـ يہ مال راضى و خوشى خود بطور ہبہ اور عطيہ خاوند كو ديا گيا ہو، يا پھر اس نے گھر ميں ركھا ہو تو اس مال كى واپسى لازم نہيں، بلكہ اس كو واپس كرنے كا مطالبہ بھى حرام ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 75056 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ـ وہ مال اس نے خاوند كو راضى خوشى نہ ديا ہو ـ يا پھر گھر ميں ركھا ـ بلكہ خاوند كے ڈر سے ديا ہو كہ كہيں وہ اس كے ساتھ اچھا سلوك نہ كرے، يا اس خوف سے كہ اگر مال نہ ديا تو خاوند اسے طلاق دے دےگا، تو خاوند كو چاہيے كہ وہ يہ مال بيوى كو واپس كرے، اور اگر اس كو واپس كرنا واجب كہا جائے تو بھى غلط نہيں بلكہ صحيح ہوگا.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب بيوى خاوند كو اپنا فالتو سونا اور زيور دے تو يہ عطيہ ہوگا، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ تمہيں اس مہر ميں سے كچھ ہبہ كر ديں تو تم اسے ہنسى خوشى كھاؤ النساء ( 4 ).
جب وہ يہ ہنسى خوشى دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ليكن اگر وہ اسے بطور قرض دے تا كہ وہ اس سے اپنى ضرورت پورى كر لے اور بعد ميں اسے واپس كرے تو جب بھى آسانى ہو اس كو يہ واپس كرنا واجب ہوگا، اس نے جو كچھ اس سے ليا ہے وہ اسے واپس ضرور كرے...
حتى كہ اگرچہ اس نے وہ اسے قرض نہ بھى ديا ہو ليكن بطور معاونت ديا ہو تو جب آسانى ہو وہ اس سے ليے ہوا مال واپس كرے تو يہ افضل و بہتر ہے، اور مكارم اخلاق ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ اس كا اچھا بدلہ ہوگا، ليكن اگر بيوى كى جانب سے راضى و خوشى عطيہ ہو تو اسے واپس كرنا لازم نہيں.
ليكن اگر وہ اس سے شرما جائے يا پھر اس كے شر سے خوفزدہ ہو كہ وہ اسے طلاق دے دےگا تو اس ليے مال خاوند كو ديا تو اولى و بہتر يہى ہے كہ جب بھى آسانى ہو وہ مال واپس كرے، چاہے بيوى نے كچھ بھى نہ كہا ہو اسے واپس كرنا چاہيے كيونكہ اس نے اس ليے ديا كہ وہ اس كے مكر و شر سے ڈر رہى تھى، يا پھر اسے طلاق كا خدشہ تھا، اور يہ بہت سارى عورتوں سے ہوتا ہے، اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ مكارم اخلاق كا مظاہرہ كرے اور جب بھى آسانى ہو اس سے ليا ہوا مال واپس كر دے " انتہى
فتاوى الشيخ ابن باز ( 19 / 12 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اس كا نعم البدل دے اور آپ كو نيك و صالح خاوند عطا فرمائے.
واللہ اعلم .