الحمد للہ.
اس بارے میں متعدد اقوال ہیں:
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
پہلاقول: یہ ہے کہ تقلید کرتے ہوئے فتوی دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ تقلید علم نہیں ہے، جبکہ فتوی علم کے بغیر دینا جائز ہی نہیں ہے، اور اس بارے میں سب متفق ہیں کہ تقلید علم کا نام نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مقلد کو عالم نہیں کہا جاسکتا، یہ موقف اکثر اصحاب [حنبلی]اور جمہور شافعی علماء کا ہے۔
دوسرا قول: یہ ہے کہ اپنی ذات کیلیے یہ جائز ہے، یعنی اگر کوئی شخص اپنے لیے فتوی لینا چاہتا ہے تو علماء میں سےکسی کی تقلید کرسکتا ہے، لیکن اگر کسی دوسرے شخص کو اس نے فتوی دینا ہے تو اس کیلیے تقلید کرنا جائز نہیں، یہ قول حنابلہ میں سے ابن بطہ وغیرہ کا ہے؛ قاضی کہتے ہیں: ابن بطہ نے برمکی کو بھیجے گئے مکتوبات میں ذکر کیا ہے کہ: [مفتی کیلیے ]جائز نہیں کہ وہ کسی مفتی کا فتوی سن کر آگے فتوی دے دے، ہاں وہ اپنی ذات کیلیے کسی کی تقلید کرسکتا ہے، لیکن کسی اور شخص کو فتوی دینے کیلیے تقلید نہیں کر سکتا۔
تیسرا قول: یہ ہے کہ کسی عالم مجتہد کی عدم موجودگی اور ضرورت کے وقت تقلید کرتے ہوئے فتوی دینا جائز ہے، اور یہ ہی سب سے درست قول ہے، اور اسی پر عمل بھی ہے۔چنانچہ قاضی کہتے ہیں: ابو حفص نے اپنی تعلیقات میں کہا ہے کہ: میں نے ابو علی الحسن بن عبداللہ النجاد کو کہتے سنا وہ کہہ رہے تھے: میں نے ابو الحسین بن بشران کو سنا وہ کہہ رہے تھے: "میں ایسے شخص کو کسی تنقید کا نشانہ نہیں بناتا جو امام احمد کے پانچ مسائل یاد کرے اور پھر مسجد کے کسی ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر فتوی دے".