سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ساس اور بہو ميں جھگڑا ماں چاہتى ہے كہ بيٹا ان سے دور رہے

141628

تاریخ اشاعت : 12-04-2011

مشاہدات : 10011

سوال

ميرى والدہ اور ميرى بيوى كے مابين تعلقات بہت خراب ہيں، اور اس درجہ تك خراب ہو گئے ہيں كہ ميرى والدہ ميرى بيوى كا چہرہ بھى نہيں ديكھنا چاہتى، والدہ چاہتى ہے كہ ہم عليحدہ ہو جائيں، ليكن ميں اپنى والدہ كو نہيں چھوڑتا چاہتا كيونكہ ميں خاندان ميں بڑا بيٹا ہوں، اور اسى طرح ميں انہيں ناراض بھى نہيں كرنا چاہتا، تو كيا ميں اپنى بيوى كو طلاق دے دوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ بيٹے پر ماں كا عظيم حق ہے، اور والدہ كے ساتھ حسن سلوك كرنا سب سے بڑا واجب ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تيرا رب يہ فيصلہ كرچكا ہے كہ اس كے علاوہ كسى دوسرے كى عبادت مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك كيا كرو، اگر آپ كى زندگى ميں وہ دونوں يا پھر ان ميں سے كوئى ايك بوڑھا ہو جائے تو تم انہيں اف بھى مت كہو اور نہ ہى ان كى ڈانٹ ڈپٹ كرو، اور ان كے ليے اچھى اور نرم بات كہو الاسراء ( 23 ).

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ان دونوں يعنى والدين كے علاوہ دوسروں كے ساتھ بھى حسن سلوك كرنے كا حكم ديا ہے جن كے ساتھ حسن سلوك كرنا واجب ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ كى عبادت كرو، اور كسى كو بھى اللہ كے ساتھ شريك مت ٹھراؤ، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك كرو، اور قريبى رشتہ داروں كے ساتھ اور يتيموں كے ساتھ، اور مسكينوں كے ساتھ اور قرابت دار ہمسائيوں كے ساتھ، اور اجنبى ہمسايہ كے ساتھ اور پہلو كے ساتھى كے ساتھ، اور راہ كے مسافر سے اور ان غلاموں سے حسن سلوك كرو، يقينا اللہ تعالى تكبر كرنے والوں اور شيخى خوروں كو پسند نہيں فرماتا النساء ( 36 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر حقدار كو اس كا حق دينے كا حكم ديا ہے "

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 1968 ).

چنانچہ والدين كا حق اور خاص كر سب لوگوں كے حقوق پر مقدم ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: لوگوں ميں سے ميرے ليے سب سے زيادہ حسن سلوك كا مستحق كون ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ.

اس شخص نے عرض كيا: پھر كون ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ.

اس شخص نے عرض كيا: پھر كون ؟

نبى كريم صلى للہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ.

اس شخص نے عرض كيا: پھر كون ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرا والد "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5971 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548 ).

ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ انسان دسروں كو ان كے حق نہ دے، بلكہ اس پر واجب ہے كہ ہر شخص كو اس كا حق دے جيسا كہ اوپر بيان كيا گيا ہے، اور وہ ان حقوق ميں توازن قائم كرے، اور اس ميں حسب استطاعت ان مصالح كو جمع كرے جن كى قدرت ركھتا ہے، اور وہ اپنے گھر كو چلانے ميں حكمت سے كام ليتے ہوئے اچھے طريقہ سے معاملات سرانجام دے.

دوم:

ساس اور بہو كے مابين اس قسم كى مشكلات عام اور تكرار سے ہوتى ہيں، اور پھر يہ نئى چيز نہيں بلكہ قديم دور سے ہى آ رہى ہيں؛ ليكن ايك عقلمند شخص اپنے معاملات ميں اچھى نظر ركھتا ہے اور اسے ايسے طريقہ سے سرانجام دے كہ وہ ان مشكلات كو حسب استطاعت كم كر سكے، اور اس كے دروازے بند كرے.

اسى ليے بيوى كا اپنے خاوند پر يہ حق ہے كہ وہ اپنى بيوى كو عليحدہ رہائش لے كر دے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" والدين اور بيوى كو ايك ہى رہائش ميں اكٹھے ركھنا جائز نہيں ہے ( اور اسى طرح دوسرے رشتہ داروں كو بھى ) اس ليے بيوى كو حق حاصل ہے كہ ساس اور سسر ميں سے كسى ايك كے ساتھ رہنے سے انكار كر سكتى ہے؛ كيونكہ بيوى كے ليے مستقل اور عليحدہ رہائش پر وہ اپنے آپ اور اپنے مال اور اپنے حقوق پر پرامن رہ سكتى ہے، اور كسى كو بھى اسے ساس اور سسر كے ساتھ رہنے پر مجبور كرنے كا كوئى حق نہيں.

جمہور فقھاء احناف اور شافعى اور حنابلہ كا يہى مسكل ہے.

اور مالكى حضرات نے شريف اور غير شريف عورت ميں فرق كرتے ہوئے كہا ہے كہ:

شريف عورت اور اس كى ساس و سسر كو ايك ہى رہائش ميں ركھنا جائز نہيں، ليكن اگر وہ عورت شريف نہيں تو پھر اسے ساس اور سسر كے ساتھ ركھنا جائز ہے.

ليكن اگر غير شريف عورت اور خاوند كے ماں باپ كو ايك ہى رہائش ميں ركھنے ميں بيوى پر ضرر ہو تو پھر يہ بھى صحيح نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 25 / 109 ).

آپ نے سوال ميں جو صورت بيان كى ہے اس سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ بلاشك و شبہ آپ كى ماں اور آپ كى بيوى كو ايك ہى رہائش ميں اكٹھا ركھنا ممكن نہيں، اور ان دونوں كو عليحدہ ركھنا واجب اور ضرورى ہے.

خاص كر ماں نے ہى يہ مطالبہ كيا ہے، اس ليے جتنى جلدى ہو سكے آپ عليحدہ ہو جائيں، اور اس مسئلہ كو حل كرنے كے ليے كوئى اور سوچ اور رائے مت ركھيں، يعنى آپ كا اپنى بيوى كو طلاق دينا يہ اس مشكل كا حل نہيں ہے.

اور خاص كر جب آپ كا بيٹا بھى ہے؛ اور پھر يہ مشكل تو آئندہ بھى ہر بيوى كے ساتھ ہو گى جو بھى آپ اپنى ماں كے ساتھ رہائش ميں ركھيں گے.

اس ليے آپ كو جو رائے جلدى اختيار كرنى چاہيے وہ آپ كى قدرت اور استطاعت كے مطابق ہے، وہ يہ كہ آپ اپنى بيوى كے ليے كوئى مستقل اور عليحدہ رہائش تلاش كريں، اور اگر آپ رغبت ركھتے ہيں كہ آپ اپنى والدہ كے قريب رہيں اور اس سے صلہ رحمى اور اس كى ديكھ بھال كرتے رہيں تو آپ اپنى والدہ كى رہائش كے قريب ترين رہائش تلاش كريں.

اس طرح آپ جب بھى گھر آئيں يا باہر جائيں تو آپ كے ليے اپنى والدہ كے پاس جانا ممكن ہوگا، اس طرح آپ اپنى والدہ سے صلہ رحمى و حسن سلوك اور بيوى كے ساتھ مشكلات سے راحت دونوں كو جمع كر سكتے ہيں.

اور اپنى والدہ سے ہميشہ تعلق بھى قائم ركھ سكتے ہيں اور اس كے ساتھ ساتھ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت بھى قائم ركھيں آپ پر جو حقوق واجب ہيں ان كى ادائيگى كريں اور اسے اس كى حيثيت كے مطابق رہائش لے كر ديں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 97810 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو رشد و ہدايت سے نوازے اور آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب