الحمد للہ.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
تين درہم ميں چور كا ہاتھ كاٹنا اور جھپٹنا مارنےاور لوٹنےوالے اور غاصب كا ہاتھ نہ كاٹنے ميں بھي شارع كي پوري اور مكمل حكمت ہے؛ كيونكہ چور سے احتراز ممكن نہيں وہ گھروں ميں نقب زني كرتا آڑ اور تالےتوڑ ڈالتا ہے، مال كےمالك كےليےاس سےزيادہ بچاؤ كرنا ممكن نہيں، لھذا اگر لوگوں كا ايك دوسرے كےمال چوري كرنے كي بنا پر ہاتھ كاٹنا مشروع نہ كيا جاتا توضرر اور نقصان بڑھ جاتا اور چوري كےساتھ مصيبت اور سخت ہوجاتي .
لوٹنےاور جھپٹنےوالےكےبرخلاف، كيونكہ لوٹ مار كرنےوالا وہ شخص ہے جو لوگوں كا مال اعلانيہ طور پر لوگوں كےسامنےچھينےاس ليے لوگوں كےليے اسےروكنا اور مظلوم كاحق واپس دلانا اور حكمران كےپاس اس كي گواہي و شہادت دينا ممكن ہے.
اور جھپٹنےوالا شخص مال اس وقت حاصل كرنا ہے جب اس كا مالك غفلت ميں ہو، تواس ميں ايك نوع كي كوتاہي پائي جاتي ہے جس كي بنا پر جھپٹا مارنےوالا مال چھين سكتاہے، ليكن اگر لوگ پوري طرح ہوشيار اور حفاظت كريں توچھيننا ناممكن ہوگا، لھذا يہ چور كي طرح نہيں بلكہ يہ خيانت كرنےوالےشخص كےزيادہ مشابہ ہے.
اور يہ بھي ہے كہ: مال جھپٹنےوالا تومال وہاں سےحاصل كرتا ہے جہاں وہ غالبا باحفاظت نہيں ہوتا، كيونكہ وہ آپ كومال سےغفلت دلا كر مال اس وقت چھينتا ہے جب آپ اس كي حفاظت سےغفلت برتتےہيں، حالانكہ اس سے تو مال كي حفاظت كرنا ممكن تھي تويہ بھي لوٹنےوالےكي طرح ہے، اور غاصب كا معاملہ تو ظاہر ہے، اور جھپٹنےوالے سے اس كا ہاتھ نہ كاٹنا اولي ہے، ليكن ان كي زيادتي اورظلم سے بچنےاور انہيں روكنےكےليے مارنا اور لمبي قيد اوراس پر جرمانہ كركےسزا دينا جائز ہے .