الحمد للہ.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
ديناركےچوتھےحصہ ميں ہاتھ كاٹنے اور اس كي ديت پانچ سودينا مقرر كرنے ميں بہت بڑي مصلحت اور حكمت پائي جاتي ہے؛ اس ليے شريعت نے دونوں جگہ پر اموال اور اعضاء كا خيال ركھا ہے، لھذا چوتھائي دينار ميں ہاتھ كاٹنےميں اموال كي حفاظت ہے، اور ہاتھ كي ديت پانچ صد دينار مقرر كرنا اس كي اپني حفاظت اورديكھ بھال ہے، بعض زنديقوں نےيہي سوال كيا ہے جو دو اشعار ميں بيان كيا گيا ہے:
ہاتھ كي ديت سونےكےپانچ سودينار ہيں اسےكيا ہے كہ وہ چوتھائي دينار ميں كاٹ ديا گيا، يہ ايسا تناقض ہے جس ميں ہميں سكوت كےسوا كوئي چارہ نہيں ہم عار سےاپنےمولا كي پناہ ميں آتےہيں .
بعض فقھاء نےاس كا جواب يہ ديا كہ: ہاتھ جب امانت دار تھا تواس كي بہت قيمت تھي ليكن جب اس نےخيانت كي تواس كي كوئي قيمت نہ رہي اسےناظم نےاشعارميں اس طرح بيان كيا ہے:
ہاتھ كي ديت سونےكےپانچ سودينار ہيں ليكن چوتھائي دينار ميں كاٹ ديا گيا.
خون كي حفاظت زيادہ قيمتي ہے اور مال كي خيانت كرنےكي كوئي قيمت نہيں لھذا آپ پيدا كرنےوالے كي حكمت ديكھيں .
بيان كيا جاتا ہےكہ امام شافعي رحمہ اللہ تعالي نےيہ كہتےہوئےجواب ديا:
وہاں مظلوم تھا تواس كي قيمت بہت زيادہ بڑھ گئي،اور يہاں اس نےظلم كيا تواللہ تعالي كےہاں اس كي كوئي قيمت نہ رہي .