ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

قبروں کی زیارت کے آداب

سوال

اگر میں اپنے والد کی قبر کی زیارت کرنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا ہو گا؟
قبرستان کی زیارت کے کیا آداب ہیں؟
کیا کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جن کا خیال رکھنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عبرت حاصل کرنے اور آخرت کو یاد رکھنے کے لیے قبروں کی زیارت کرنا شرعی عمل  ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرتے وقت وہ ایسے کلمات نہ کہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کی ناراضی کا باعث بنے، مثلاً:  اللہ تعالی کو چھوڑ کر قبر میں دفن شدہ سے مانگنا اور اسے پکارنا، اس سے مدد طلب کرنا، یا اس کی شان میں قصیدے پڑھنا ، اور اسے یقیناً جنتی قرار دینا، وغیرہ۔

قبروں کی زیارت کے دو مقاصد ہیں:

1-  زیارت کرنے والا شخص موت اور فوت شدگان کو یاد کر کے اپنے فائدے کیلیے سوچتا ہے، اور یہ یاد کرتا ہے کہ ان فوت شدگان کا ٹھکانا یا تو جنت ہے یا جہنم، قبروں کی زیارت کا پہلا اور بنیادی مقصد یہی ہے۔

2-  زیارت کرنے والے شخص کے سلام ، نیک تمناؤں اور میت کے لیے دعائے استغفار کی بنا پر میت کو فائدہ ہوتا ہے، اور یہ فائدہ صرف مسلمان میت کو ہوتا ہے، اور قبرستان میں جانے کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی ہے:

"اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَإِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ"

اے گھروں کے مومن اور مسلمان مکینوں تم پر سلامتی ہو، اور ان شاء اللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا طلب گار ہوں"

قبرستان میں دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے بھی جائز ہیں، اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مندرجہ ذیل حدیث ہے:

وہ بیان کرتی ہیں کہ:

" ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو میں نے بریرہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان کے پیچھے روانہ کیا کہ دیکھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف لے گئے ہیں، وہ کہتی ہیں:

"رسول کریم صلی اللہ علیہ قبرستان بقیع الغرقد کی جانب تشریف لے گئے اور بقیع میں کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھائے، اور پھر آپ واپس ہو گئے، بریرہ دیکھ کر میرے پاس واپس پلٹ آئی اور مجھے بتایا، جب صبح ہوئی تو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات آپ کہاں چلے گئے تھے؟

تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( مجھے اہل بقیع کے لیے دعا کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا)

تاہم دعا کرتے وقت قبروں کی طرف رخ نہ کرے بلکہ دعا کے وقت قبلہ رخ ہو جائے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرنے سے منع فرمایا ہے، اور دعا نماز کا مغز اور گودا ہے، جیسا کہ معروف ہے، لہذا دعا کا حکم بھی نماز والا ہی ہوگا، اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:( دعا عبادت ہے) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَكُمْ)

ترجمہ: اور تمہارے رب کا فرمان ہے تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کرونگا۔

اور مسلمانوں کی قبروں کے درمیان جوتوں سمیت مت چلے؛ کیونکہ عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے انگارے یا تلوار پر چلنا، یا اپنا جوتا اپنے پاؤں سے گانٹھ دینا مسلمان کی قبر پر چلنے سے زیادہ محبوب ہے، اور قبروں کے درمیان قضائے حاجت عین بازار کے درمیان قضائے حاجت جیسا ہے)

سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1567 ).

بلند و بالا اور قدرت رکھنے والے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اور مسلمانوں کے فوت شدگان پر رحمتیں نازل کرے۔.

ماخذ: ماخوذ از: مختصر احكام الجنائز للالبانى ( كچھ كمى و بيشى كے ساتھ )