الحمد للہ.
پہلی بات:
سوال نمبر (95880) کے جواب میں کمیٹی کے جواز کا فتوی گزر چکا ہے۔
دوسری بات:
کمیٹی کی رقم قرض ہی شمار ہوتی ہے، اسکی ادائیگی اس انداز سے ضروری ہے جیسے کمیٹی کے ممبران اسکے لئے طریقہ مقرر کریں۔
جبکہ حج کے صحیح ہونے کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ حج کرنے والے مسلمان پر قرض نہ ہو، لہذا اگر کسی نے حج کیا اور اس پر قرض بھی تھا لیکن وہ اس قرض کو چکانے کیلئے طاقت رکھتا ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (11771) کا جواب ملاحظہ کریں
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا کمیٹی ڈال کر اس سے حاصل ہونے والی رقم سے حج کرنا ٹھیک ہے؟ اور کمیٹی بھی سب سے پہلے والی ہو؟
تو انہوں نے جواب دیا: "کمیٹی یہ ہے کہ کچھ ملازمین آپس میں اتفاق کر لیں کہ ہر ماہ انکی تنخواہ سے ایک ہزار ریال کاٹ لیا جائے اور پہلے ماہ ایک شخص کو دوسرے ماہ دوسرے شخص کواور تیسرے ماہ تیسرے شخص کو دے دی جائے، یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں، اور اگر انسان سب سے پہلے والی کمیٹی وصول کرتا ہے تو باقی رقم اسکے ذمہ قرض لگ جاتی ہے، لیکن اس رقم سے حج کرنے پر کوئی حرج نہیں؛ اس لئے کہ وہ اس قرض کو ادا کر سکتا ہے، اور اسے معلوم ہے کہ جب ادائیگی کا وقت آیا تو وہ قرض چُکا سکتا ہے" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" . لقاء رقم (56) سؤال (20)
جب تک آپکو یقین ہے کہ میں کمیٹی کی قسط ہر ماہ ادا کرسکتا ہوں تو کمیٹی سے حاصل شدہ رقم سے حج کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
واللہ اعلم .