الحمد للہ.
سب تعريفات اللہ سبحانہ و تعالى كى ہيں، اور اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام اور ان كے صحابہ اور ان كے طريقہ پر علم كرنے والوں پر اللہ كى رحمتيں نازل ہوں.
اما بعد:
علم نجوم سيكھنا سكھانا اور اس پر يقين ركھنا بہت ہى برا كام ہے، اور يہ جادو كى ايك قسم ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:
" جس شخص نے بھى علم نجوم ميں سے كچھ حاصل كيا اس نے جادو كى ايك قسم حاصل كى اور اس پر جو زيادہ كيا وہ زيادہ ہے "
اہل علم كے ہاں بالاجماع علم نجوم حرام ہے، اور علم نجوم يہ ہے كہ: حادثات يعنى بيمارى اور صحت اور فقر و تنگ دستى اور مالدارى وغيرہ ميں ستاروں كا اثر اندازى كرنے كا اعتقاد ركھا جائے، اور يہ چيز نجوميوں كے اوہام ميں شامل ہے.
ليكن اصل ميں تو ستارے اللہ سبحانہ و تعالى نے آسمان كى زينت اور شيطانوں كو رجم كرنے كے ليے، اور خشكى و سمندر ميں راستہ تلاش كرنے كے ليے پيدا فرمائے ہيں، ان كا حادثات كے ساتھ كوئى تعلق نہيں، نہ تو يہ كسى كى صحت پر اثرانداز ہوتے ہيں اور نہ ہى بيمارى پر، اور نہ ہى كسى كى مالدار ميں اثر كرتے ہيں اور نہ ہى فقيرى ميں، اور نہ ہى بارش كے نزول ميں ان ستاروں كا كوئى اثر ہے اور نہ ہى كسى دوسرے چيز ميں.
بلكہ يہ تو ان نجوميوں كے وہم ہيں جن كے صحيح ہونے كى كوئى اساس تك نہيں ہے.
اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان نجوميوں كے پاس جائے اور ان سے كسى چيز كے متعلق دريافت كرنا بھى جائز نہيں، نہ تو نجوميوں كے پاس جانا جائز ہے، اور نہ ہى فال نكالنےوالوں كے پاس جانا، اور اسى طرح سب كاہن اور جادوگروں كے پاس جانا بھى جائز نہيں جو علم غيب جاننے كا دعوى كرتے ہيں، بلكہ ان سے بائيكاٹ كرنا واجب ہے، اور حكومت كى جانب سے ان كو سزا دينا اور سختى كرنا واجب ہوتا ہے تا كہ يہ لوگوں كو نقصان نہ دے سكيں اور انہيں گمراہ نہ كريں.
ان نجوميوں وغيرہ سے سوال كرنا اور ان كى تصديق كرنا جائز نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص بھى كسى نجومى كے پاس آيا اور اس سے كچھ دريافت كيا تو چاليس راتيں اس كى نماز قبول نہيں كى جائيگى"
العراف: نجومى كاہن اور فال نكالنے والے كو كہا جاتا ہے، اور ان جيسے ان افراد كو جو بعض غيب اشياء كا علم ركھنے كا دعوى كرتے ہيں، اور اس ميں وہ شيطانى طريقہ اختيار كرتے ہيں يعنى علم نجوم كو ديكھنا، يا پھر لاٹھى سے مارنا وغيرہ دوسرے غلط طريقوں سے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص كسى كاہن كے پاس آيا اور اس كے قول كى تصديق كى اس نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كردہ كا كفر كيا "
ان كى خبريں باطل ہوتى ہيں، اور ان سے دريافت كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كى تصديق كرنا جائز ہے، اور جو شخص بھى ايسا كرے ان سے سوال يا ان كى تصديق كرے اسے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہو اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا عزم كرے.
رہا اس طلاق دينے والے نوجوان شخص كا معاملہ تو اگر اس كى عقل اس كے ساتھ ہے تو يہ طلاق واقع ہو چكى ہے، ليكن يہ ايك طلاق ہو گى، كيونكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق تو ايك ہى مجلس ميں دى گئى يا لكھى گئى تين طلاق صرف ايك ہى واقع ہوتى ہے.
كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث سے يہى ثابت ہوتا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں تين طلاق ايك ہى طلاق شمار ہوتى تھى، اور اسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور خلافت ميں بھى، اور اسى طرح عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ابتدائى دور خلافت ميں "
پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بعد ميں تين طلاق دينے والى كى طلاق كو تين ہى جارى كر ديا، اور فرمايا:
لوگوں ميں اس معاملہ جلدى كرنا شروع كر دى ہے جس ميں ان كے ليے انتظار تھا، اس ليے اگر ہم ان پر يہ جارى كر ديں تو انہوں نے اسے جارى كر ديا.
ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں تو ايك ہى مجلس كى تين طلاقوں كو ايك طلاق شمار كيا جاتا تھا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا تو يہى فرمان ہے.
ليكن اگر اس نوجوان كى عقل بيمارى كى وجہ سے صحيح نہيں اور ثقہ قسم كے اشخاص اس كو جانتے ہيں تو يہ نوجوان عقل سے ماؤف شمار ہوگا، اور اس طرح كے شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى.
ليكن اگر اس كى عقل صحيح ہے اور بيمارى نے اس كى عقل پر اثر نہيں كيا تو اس كى ايك طلاق واقع ہو جائيگى اور بيوى سے بغير رجوع كيے اسے اپنے پاس ركھنا غلط ہوگا.
اور بيوى سے جماع كرنا اس كا رجوع شمار ہوگا، اگر وہ بيوى سے جماع ميں رجوع كا ارادہ ركھے تو صحيح قول كے مطابق رجوع كى نيت سے جماع كرنا رجوع كہلائيگا، ليكن رجوع كى نيت كے بغير رجوع كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے آيا يہ رجوع ہو گا يا نہيں.
صحيح يہى لگتا ہے كہ اس رجوع كى بنا پر علم نہ ہونے كى باعث وہ گنہگار ہوگا، اور حمل كى حالت ميں بيوى سے جماع كرنا اس كا رجوع ہو گا اور وہ اس كى بيوى بن جائيگا، اور اس كى ايك طلاق شمار كى جائيگى.
ليكن اگر اس نے بيوى سے جماع اور ہم بسترى نہيں كى اور نہ ہى اب تك اس سے رابطہ كيا ہے تو وضع حمل كى بنا پر وہ اپنى عدت پورى كر چكى ہے، اور اس كى ايك طلاق ہوچكى ہے اس نوجوان كو حق ہے كہ وہ اس سے نئے مہر اور نئے نكاح كے ساتھ شادى كر لے، جس طرح كوئى عام شخص كرتا ہے.
اور وہ اس سے اجنبى ہوگا گويا كہ وہ اس عورت كا رشتہ اپنے ليے طلب كر رہا ہے، اگر بيوى اس سے شادى كرنے پر راضى ہو تو وہ نئے مہر اور نكاح كے ساتھ شادى كر لے كيونكہ وضع حمل كى بنا پر اس كى عدت پورى ہو چكى ہے، يہ اس صورت ميں ہے جب طلاق كے بعد اس نے بيوى سے ہم بسترى نہيں كى.
ليكن اگر اس نے طلاق كے بعد بيوى سے ہم بسترى كر لى تو يہ رجوع شمار ہوگا، اور وہ اس كے پاس باقى رہے گى، اس كے پاس دو طلاقوں كا حق باقى رہے گا اور وہ ايك طلاق شمار ہو جائيگى، اگر اس نے پہلے كوئى طلاق نہ دى ہو تو يہ ايك طلاق ہو جائيگى.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو ہدايت نصيب فرمائے.
اور وہ لوگ جنہوں نے يہ طلاق نہ ہونے كا فتوى ديا ہے وہ غلط ہے، ہاں اگر اس كى عقل صحيح نہ تھى تو پھر يہ طلاق نہيں ہوئى، يعنى پاگل كى طرح ہو تو طلاق نہيں ہوتى.
ليكن اس شخص كا يہ سوال اس كى دليل ہے كہ وہ شخص عقل ركھتا ہے، كيونكہ اس كا يہ سوال صحيح ہے، اگر يہ سوال اس كى اپنى جانب سے ہے تو يہ اس كى عقل صحيح ہونے كى دليل ہے.
ليكن اگر يہ سوال كسى دوسرے شخص نے اس كى جانب سے بنا كر پيش كيا ہے تو بہر حال ہر حالت ميں آپ ان افراد سے دريافت كريں جو ثقہ ہوں اور تجربہ كار بھى اور اس شخص كو جانتے بھى ہوں، اگر وہ اس نوجوان كى عقل كے متعلق جانتے ہيں كہ عقل ماؤف ہے اور اپنى بات كو ياد نہيں ركھتا اور اچھى بات كر بھى نہيں سكتا، اور اس كے افعال اور اقوال پاگلوں اور نشئيوں اور كم عقلوں كى طرح عقل ماؤف ہونے پر دلالت كريں تو اس شخص كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
اس ليے ہم سب طلباء اور علماء كو اور ہر اس شخص كو جس سے كوئى سوال كيا جائے كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ بغير علم كوئى بھى فتوى نہ ديں، كيونكہ اللہ پر بغير علم كے كوئى بات كرنا كبيرہ گناہ اور سب سے بڑى گمراہى ہے.
حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے تو شرك سے بھى اوپر كہا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے ميرے پروردگار نے صرف حرام كيا ہے ان تمام فحش باتوں كو جو علانيہ ہيں، اور جو پوشيدہ ہيں اور ہرگناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہ تم اللہ كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كى اللہ نے كوئى سند اور دليل نازل نہيں كى، اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ كے ذمے ايسى بات لگاؤ جس كو تم جانتے ہى نہيں الاعراف ( 33 ).
چنانچہ يہاں اللہ عزوجل نے بغير علم كے اللہ كے ذمہ بات لگانے كو شرك سے اوپر بيان كيا ہے، اور يہ بہت خطرناك چيز ہے.
اور ايك دوسرى آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان كيا ہے كہ يہ شيطانى عمل ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
لوگو زمين ميں جتنى بھى حلال اور پاكيزہ اشياء ہيں انہيں كھاؤ پيو اور شيطانى راہ پر نہ چلو، وہ تمہارا كھلا اور واضح دشمن ہے
وہ تمہيں صرف برائى اور بےحيائى كا اور اللہ تعالى پر ان باتوں كے كہنے كا حكم ديتا ہے جن كا تمہيں علم نہيں البقرۃ ( 168 - 169 ).
چنانچہ يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے بغير علم كے اللہ پر كوئى بات كرنا شيطانى اوامر قرار دى ہے، اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں.
اس ليے مسلمان شخص پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اس سے بچ كر رہے، اور علم و بصيرت كے ساتھ ہى كوئى بات كرے اور دليل كے ساتھ اللہ كے حكم كا علم ركھے بغير يہ مت كہے كہ اللہ كا فرمان ہے يا اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يا پھر اہل علم كا اجماع ايسے ہے.
اگر فتوى دے تو وہ بصيرت و علم پر فتوى دے، اور اس كى اس كے پاس دليل بھى ہو، اگر ايسا نہيں تو اسے اس كے انجام سے بچنا چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى پر بغير علم كے كوئى بات كرنا بہت خطرناك معاملہ ہے، اللہ تعالى ہميں محفوظ ركھے " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ