اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تناسخ ارواح کا حکم

سوال

میرے خاندان کا ایک فرد تناسخ ارواح کا عقیدہ رکھتا ہے اور میں اس معاملہ میں اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں اس کے متعلق اسلامی ( اگر ہو تو ) تفسیر کیا ہے ؟ کیونکہ میری خواہش ہے کہ ان کے افکار صحیح کر سکوں ( کیونکہ ان کا کم ہو چکا ہے )

جواب کا متن

الحمد للہ.

تناسخ ارواح سے مقصود یہ ہے کہ جب جسم فوت ہو جائے تو روح کسی اور جسم میں منتقل ہو کر ان اعمال کے نتیجہ میں جو اس نے پہلے کۓ ہیں سعادت یا بدبختی کا شکار ہوتی اور اسی طرح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے –

یہ قول ( عقیدہ ) سب سے زیادہ باطل اور اللہ تعالی اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کے ساتھ کفر ہے کیونکہ آخرت اور حساب وکتاب اور جنت اور جہنم پر ایمان رکھنا یہ ایسی چیز ہے جو کہ ضروری ہے اسی وجہ سے تو رسول آۓ اور نازل کی کتابیں اسی پر مشتمل ہیں اور تناسخ ارواح کا عقیدہ رکھنا ان سب کی تکذیب ہے –

دوبارہ اٹھنے کی اسلامی تفسیر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں واضح ہے اللہ تعالی کا یہ فرمان اسی کے متعلق ہے :

" ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اورتم سب ہماری ہی طرف لوٹاۓ جا‎ؤ گے " العنکبوت / 57

ارشاد باری تعالی ہے :

" تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا تا کہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لاۓ اور انہوں نے نیک کام کۓ انصاف کے ساتھ بدلہ دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور ان کے کفر کی وجہ سے درد ناک عذاب ہو گا " یونس /4-

فرمان باری تعالی ہے :

اور جس دن ہم متقی اور پرہیزگار کو اللہ رحمان کی طرف سے بطور مہمان جمع کریں گے اور گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے " مریم / 85- 86-

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

" ان سب کو اللہ تعالی نے گھیر رکھا اور سب کو پوری طرح شمار بھی کر رکھا ہے " مریم / 94 95 –

اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

" اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود (برحق ) نہیں وہ تم سب کو یقینا قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے (آنے) میں کوئی شک نہیں " النساء / 87-

رب ذوالجلال کا فرمان ہے :

" ان کافروں نے خیال کر رکھا ہے کہ وہ دوبارہ زندہ نہ کۓ جائیں گے آپ کہہ دیجۓ کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم تم ضرور دوبارہ اٹھاۓ جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہے اس کی خبر دئیے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل آسان ہے " التغابن / 7-

اس کے علاوہ بہت سی محکم آیات ہیں --

اور سنت نبوی میں دوبارہ اٹھنے کا ذکر اور اس کی تفصیل وتقریر اتنی ہے کہ جس کا شمار ہی ممکن نہیں اور اسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے :

( بیشک تم ننگے پاؤں ننگے جسم اور غیر ختنے کۓ ہوئے اکٹھے کۓ جاؤ گے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی < جیسے کہ ہم نے پہلی دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے ہی رہیں گے > اور قیامت کے دن سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہناۓ جائیں گے –

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3100) صحیح مسلم حدیث نمبر (5104)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

" بے شک انسان میں ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی قیامت کے دن اسی سے ترکیب ہو گی ( اسے جوڑا جائے گا ) صحابہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سی ہڈی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ریڑھ کی ہڈی میں سب سے نچلی ہڈی ہے " صحیح مسلم حدیث نمبر ( 5255)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

" قیامت کے دن سورج مخلوق کے ایک میل نزدیک ہو گا سلیم بن عامر کہتے ہیں (حدیث کا ایک راوی ) اللہ کی قسم مجھے علم نہیں ایک میل سے کیا مراد ہے آیا کہ زمین کی مسافت کا ایک میل یا کہ وہ سرمہ کی سلائی جس سے آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ اپنے اعمال کے حساب سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ان میں سے بعض تو وہ ہوں گے جو ٹخنوں تک ڈوبے ہوئے اور بعض گھٹنوں تک اور بعض کے کولہوں تک ( جہاں شلوار باندھی جاتی ہے ) اور بعض کو پسینہ لگام ڈال دے گا راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 5108)

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :

" میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھولنے کے لۓ کہوں گا تو جنت کا دربان کہے گا آپ کون ہیں ؟ میں جواب دوں گا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی کے لۓ بھی دروازہ نہ کھولوں گا ) صحیح مسلم حدیث ( 292)

اس کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں :

تو تناسخ ارواح کا عقیدہ رکھنا اور یہ کہنا کہ یہ ہے ان سب نصوص کی تکذیب اور انہیں رد کرنا اور دوبارہ اٹھنے سے انکار ہے –

اور شریعت اسلامیہ میں جو عذاب قبر اور اس کی نعمتوں اور فرشتوں کے سوال اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ انسان کی روح کسی دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوتی روح اور جسم پر قبر کا عذاب اور نعمتوں کا وقوع ہوتا ہے حتی کہ لوگ اپنے رب کی طرف اکٹھے کۓ جائیں گے –

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ( ان کے رد میں اتنا ہی کافی ہے کہ سب اہل اسلام کا ان کے کفر پر اجماع ہے اور جو ان کے قول کی طرح کا قول کہتا ہے وہ غیر مسلم ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں لاۓ )

الفضل فی الملل والاھواء والنخل 1/ 166-

اور یہ اعتقاد رکھنا کہ جسم فنا ہو جائے گا اور دوبارہ نہیں اٹھے گا جس میں نعمتوں یا پھر عذاب سے دو چار ہو گا یہ ایک ایسا راہ ہے جو انسان کو شہوات اور ظلم اور اندھیروں میں غرق کر دیتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو شیطان اس عقیدہ فاسد کے رکھنے والوں سے چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس ردی مذہب کے ساتھ کفر میں ڈبونا چاہتا ہے –

آپ پر واجب ہے کہ اس انسان کو اللہ تعالی کی کلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے ساتھ نصیحت کریں اور سمجھائیں اور اسے اس کفر سے توبہ کی دعوت دیں اگر وہ توبہ اور رجوع کر لے تو اچھی بات وگرنہ اس سے دور رہنا اور اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بچنا اور اس سے برات کا اظہار کرنا واجب ہے تا کہ اس کے جھانسے میں نہ آ‎ئیں اور اس سے دھوکہ نہ کھائیں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد