الحمد للہ.
اول:
اگر آدمى نے صريح طلاق كے الفاظ مثلا تجھے طلاق نہ بولے ہوں اور وہ اپنے قول: " گھر واپس نہ آنا " سے طلاق مراد نہ لے تو اس پر طلاق لازم نہيں ہوئى.
عدالت جا كر عدالت ميں طلاق كى كراوئى شروع كرنا طلاق نہيں كہلاتا، جب تك آدمى طلاق كے الفاظ نہ بولے يا لكھ نہ دے.
اور طلاق لكھنے كے متعلق علماء كرام تفصيل بيان كرتے ہيں اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 72291 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
جب خاوند نے لكھ كر يا بول كر طلاق دے دى ہو تو خاوند كو عدت كے اندر اندر بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر يہ طلاق رجعى يعنى پہلى يا دوسرى طلاق ہو.
عدت كى ابتداء طلاق ہونے كے وقت سے شروع ہوگى، جب عدت گزر جائے اور خاوند رجوع نہ كرے تو بيوى اس سے بائن ہو جاتى ہے، اور اس كے ليے نئے مہر اور نئے نكاح كے ساتھ ہى حلال ہوگى.
عورت كى عدت تين حيض ہوگى اور اگر اسے حيض نہيں آتا تو اس كى عدت تين ماہ ہوگى، اور حاملہ عورت كى عدت وضع حمل ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور طلاق والياں تين طہر انتظار كريں البقرۃ ( 228 ).
اور فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو تمہارى عورتيں حيض سے نااميد ہوچكى ہيں اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين ماہ ہے، اور جنہيں حيض آيا ہى نہيں ان كى بھى، اور حمل واليوں كى عدت وضع حمل ہے الطلاق ( 4 ).
واللہ اعلم .