الحمد للہ.
اول:
كسى بھى عورت كے ليے بغير شرعى عذر كے طلاق طلب كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ سنن ابو داود اور ترمذى اور سنن ابن ماجہ ميں درج ذيل حديث مروى ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى ضرورت و تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الباس: كا معنى شدت و تنگى اور ايسا سبب جس كى بنا پر طلاق طلب كى جا سكتى ہو.
طلاق طلب كرنے كے مباح عذر ميں خاوند كى سوء معاشرت يعنى برا سلوك اور نان و نفقہ يعنى اخراجات نہ دينا، اور بيوى كى رضامندى كے بغير بيوى سے چھ ماہ سے زائد دور رہنا، اور بيوى كا اپنے خاوند كو ناپسند كرنا كہ بيوى كے ليے خاوند كے ساتھ رہنا مشكل ہو جائے، يا اسے خدشہ ہو كہ يہ چيز اسے خاوند كى نافرمانى پر ابھارےگى اور اس طرح وہ خاوند كے حقوق ادا كرنے ميں كوتاہى برتنے لگے گى.
صحيح بخارى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت بن قيس كے نہ تو اخلاق ميں كوئى عيب لگاتى ہوں، اور نہ ہى اس كے دين، ليكن ميں اسلام ميں ناشكرى اور كفر كو پسند نہيں كرتى.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم اسے اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟
وہ كہنے لگى: جى ہاں ميں واپس كرتى ہوں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: باغ قبول كر لو اور اسے ايك طلاق دے دو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4867 ).
ثابت بن قيس كى بيوى كا يہ كہنا:
" ليكن ميں اسلام ميں كفر و ناشكرى كو ناپسند كرتى ہوں"
يعنى ميں يہ پسند نہيں كرتى كہ كوئى ايسا عمل كر بيٹھوں جو اسلامى احكام كے منافى ہو يعنى خاوند كى نافرمانى ہو جائے، يا پھر خاوند سے بغض ركھوں يا اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كر سكوں.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 400 ).
خاوند اور بيوى كو يہ ادراك ہونا چاہيے كہ ازدواجى زندگى ميں بعض اوقات ايسى چيزيں آ جاتى ہيں جو پسند نہيں ہوتيں اور كئى ايك ايسے موڑ آتے ہيں جو بہت مشكل ہوتے ہيں جنہيں طلاق كى بجائے باہمى محبت و بات چيت اور افہام و تفہيم سے سلجھايا جا سكتا ہے، اسى طرح رشتہ داروں كو بھى چاہيے كہ وہ خاوند اور بيوى ميں صلح كرانے كى كوشش كريں اور ان دونوں ميں اختلافات كے اسباب كو ختم كرنے كى سعى كريں تا كہ اللہ تعالى كے اس فرمان پر بھى عمل كر سكيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور اگر ان دونوں كے مابين اختلاف كا خدشہ ركھو تو ايك خاوند كے خاندان سے اور ايك بيوى كے خاندان سے صلح كرانے والے مقرر كرو، اگر وہ اصلاح كرنا چاہيں تو اللہ ان كو توفيق دےگا يقينا اللہ تعالى علم والا خبر ركھنے والا ہے النساء ( 35 ).
دوم:
اگر كوئى ايسا سبب پايا جائے جو طلاق كو مباح كرتا ہو اور خاوند اپنى بيوى كو طلاق دے دے تو بيوى باقى مانندہ مہر كى حقدار ٹھرےگى.
رہا گھريلو سامان تو جو چيز بيوى كى ملكيت تھى اور وہ اس نے اپنے خاوند كو ہبہ نہيں اور نہ ہى اسے تحفتاً دى ہے تو وہ بيوى كى مليكت ہے جب چاہے وہ لے سكتى ہے.
اور جو چيز خاوند كى مليكت تھى ليكن وہ اس نے بيوى كے مہر كا حصہ بنا دى ہو تو وہ چيز بھى بيوى كى مليكت ہے طلاق ہونے كى صورت ميں وہ چيز بيوى كو حاصل ہوگى.
سوم:
جب خاوند بيوى كو طلاق دينے سے انكار كر دے، اور كوئى ايسا ضرر نہ پايا جاتا ہو جو خاوند كو طلاق دينے كا تقاضا ركھتا ہو، تو پھر اس حالت ميں بيوى كے سامنے يہى حل ہے كہ وہ خاوند سے خلع حاصل كر لے جيسا كہ ثابت بن قيس كى بيوى كے واقعہ والى حديث ميں بيان ہو چكا ہے.
اور اس وقت خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ بيوى كے ليے شرط ركھے كہ وہ اپنے سارے يا كچھ مہر سے دستبردار ہو جائے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 26247 ) اور ( 1859 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .