سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر یہ لکھ دیا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو

144659

تاریخ اشاعت : 03-07-2017

مشاہدات : 13479

سوال

سوال: ہمارے خاندان میں سے ایک شخص کا اپنی بیوی کے ساتھ تعلق اچھا نہیں ہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے ان کی لڑائی بھی ہوئی جس میں مرد نے اپنی بیوی کو طلاق کا لفظ بھی بول دیا اور پھر اس کے بعد قانونی طور پر لکھی گئی تحریر بھی لے آیا جس میں درج تھا: "تم آزاد ہو جس کے پاس مرضی چلی جاؤ" نیز یہ تحریر اپنی بیوی کو تھماتے ہوئے اس نے کہا: "اب سے تم میری طرف سے فارغ ہو "۔
اس پر دونوں گھرانوں کی جانب سے ذمہ داران کوشش کر رہے ہیں کہ ان میں صلح ہو جائے، لیکن اس کام کو شروع کرنے سے پہلے ہم اس بات کی تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ وہ شرعی طور پر ایک دوسرے کے میاں بیوی ہیں یا نہیں؟ میں امید کرتا ہوں کہ اگر طلاق واقع ہو چکی ہے تو پھر اس بارے میں ہمیں مشورہ دیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ فیملی حنفی مذہب کی پیروکار ہے تو امید ہے کہ آپ انہیں مشورہ اور نصیحت بھی حنفی مذہب کے مطابق ہی کریں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صریح لفظ بولنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، مثلاً: خاوند کہے: "تمہیں طلاق ہے"۔

اسی طرح اگر طلاق تحریری طور پر صریح لفظوں میں ہو یا غیر صریح لفظوں میں  طلاق کی نیت ساتھ ہو تو  اس صورت میں بھی طلاق ہو جائے گی۔

غیر صریح  الفاظ میں یہ جملے شامل ہیں: "آپ کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی مکمل چھٹی اور آزادی ہے" ان لفظوں سے طلاق اسی وقت ہو گی جب خاوند کی نیت طلاق دینے کی ہو، چنانچہ اگر طلاق دینے کی نیت نہ ہو تو پھر طلاق واقع نہیں ہو گی۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (120947) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

دوم:

اگر خاوند نے پہلے صریح لفظوں میں طلاق کا لفظ بولا پھر دوران عدت بیوی سے رجوع کئے بغیر دوسری طلاق دینے کیلیے یہ تحریر لکھ دی  تو جمہور فقہائے کرام کے ہاں طلاق واقع ہو جائے گی، اس بارے میں احناف کا موقف بھی  جمہور والا ہی ہے۔
دیکھیں: بدائع الصنائع (3/ 134) ، البحر الرائق (3/ 334)

جب کہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ اس صورت میں دوسری طلاق واقع ہی نہیں ہو گی، یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے اور اسی کو ابن عثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، چنانچہ اس موقف کے مطابق دوسری طلاق  اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک پہلی کے بعد رجوع نہ ہو جائے اور یا پہلی طلاق کے بعد عدت ختم ہونے کی صورت میں نیا نکاح نہ ہو جائے۔

چنانچہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان تمام مسائل میں راجح موقف یہی ہے کہ رجوع یا نیا نکاح درمیان میں آئے بغیر تین طلاقیں ہو ہی نہیں سکتیں، یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے اور یہی موقف صحیح ہے۔" انتہی
"الشرح الممتع" (13/94)

لہذا اس موقف کے مطابق تو صرف ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے۔

سوم:

بیوی کو تحریر تھماتے ہوئے  خاوند نے کہا: "تم اب آزاد ہو" اس سے اگر نیت یہ تھی کہ تحریر کی مزید تاکید ہو جائے تو پھر کسی کے ہاں بھی نئی طلاق نہیں ہو گی، اور اگر یہ الفاظ کہتے ہوئے نیت نئی طلاق  کی ہو تو پھر جمہور کے ہاں ایک اور طلاق ہو جائے گی جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے ہم موقف اہل علم کے ہاں طلاق نہیں ہو گی؛ کیونکہ ان کے ہاں طلاق نئے عقد یا رجوع کے بعد ہی ممکن ہے۔

ہماری ویب سائٹ پر جس موقف کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے۔

اس بنا پر : لکھی ہوئی طلاق اور طلاق کا کاغذ تھماتے ہوئے بولے گئے الفاظ ،اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ  دونوں مرتبہ (بولتے وقت اور لکھتے ہوئے) طلاق کی نیت تھی  اور یہ دونوں کام پہلی طلاق کی عدت میں ہوئے ہیں تو بھی طلاق نہیں ہو گی، اور خاوند کے حساب میں  ایک طلاق کا حق شمار ہو گا، خاوند کو عدت باقی ہونے کی صورت میں رجوع کا حق حاصل ہے، لیکن اگر عدت ختم ہو چکی ہے تو پھر نیا عقد اور نیا حق مہر  دے کر رجوع کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب