الحمد للہ.
اول:
بيوى كو چاہيے كہ جہاں خاوند رہتا ہے وہ اس كے ساتھ وہيں رہے، ليكن اگر اس ميں كوئى معتبر ضرر و نقصان ہو تو پھر نہيں، يا پھر شادى كے وقت عورت نے كسى ايك متعين جگہ پر رہنے كى شرط ركھى ہو، يا يہ شرط ہو كہ وہ اپنے علاقے سے كہيں اور منتقل نہيں ہو گى لہذا يہ شرط پورى كرنا واجب ہے، كيونكہ بخارى اور مسلم شريف ميں درج ذيل حديث ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے ليے سب سے زيادہ شروط پورى كرنے كا حق وہ شرطيں ہيں جن كے ساتھ تم نے شرمگاہوں كو حلال كيا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).
دوم:
كفريہ ممالك ميں رہنے كى كچھ شروط و ضوابط ہيں ان كے بغير وہاں رہنا جائز نہيں، شروط ميں شامل ہے كہ وہ ديندار ہو جو اسے شہوات سے روكے ركھے، اور علم و بصيرت ركھتا ہو جو اسے شكوك و شبہات سے محفوظ ركھيں، اور دينى شعار كا اظہار كرنا ممكن ہو، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے آپ اور بيوى بچوں كے فتنہ و فساد ميں پڑنے سے امن ميں ہو.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13363 ) اور ( 27211 ) كے جوابات كا ضرور مطالعہ كريں.
سوم:
تعليم كے سلسلہ ميں آپ كو اپنے خاوند كے ساتھ سمجھوتہ كرنا چاہيے، اگر ممكن ہو سكے تو آپ تعليم مكمل كريں تا كہ آپ كى جدوجھد ضائع نہ ہو يہ افضل ہے، جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے خاوند كے ليے تھوڑا اور قليل عرصہ اكيلے رہنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كا برتاؤ كرتے ہوئے اس كے ساتھ سختى مت كرے يا صرف مرد ہونے كے ناطے اپنى بيوى پر تنگى مت كرتا پھرے.
اس ليے آپ دونوں كو افہام و تفہيم سے كام لينا چاہيے كہ آيا آپ كا اپنے خاوند كے ساتھ امريكہ ميں رہنا اور تعليم كو مؤخر كرنا افضل ہے يا كہ خاوند كو ضرر پہنچے بغير آپ كا اپنے ملك واپس آ كر تعليم مكمل كرنا ؟
كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كے خاوند كے پاس رہنے كے ليے كوئى قابل اطمنان اسباب ہوں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ دونوں كو اپنى اطاعت و نيكى ميں توفيق دے اور اس ميں آپ كى معاونت فرمائے.
واللہ اعلم.