الحمد للہ.
زکاۃ کئی اہداف حاصل کرنے کیلئے فرض کی گئی ہے، جن میں سے ایک ہدف یہ بھی ہے کہ ضرورت مند کی ضروریات پوری کی جائیں، اور ایسا مریض جس کے پاس اپنے علاج معالجے کیلئے کوئی رقم اور ذریعہ معاش بھی نہیں ہے تو وہ بلا شبہ زکاۃ کا مستحق ہے؛ کیونکہ ایسا شخص اللہ تعالی کے فرمان: ( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ...) [بیشک صدقات فقراء اور مساکین ۔۔۔ کیلئے ہیں]التوبة/60 کے عموم میں داخل ہوتا ہے۔
بلکہ ایسا شخص دیگر فقراء سے زیادہ زکاۃ کا مستحق ہے، کیونکہ یہ غریب ہونے کے ساتھ ساتھ کمانے سے بھی عاجز ہے۔
تاہم اصولی طور پر فقیر اور مسکین کو زکاۃ کی رقم اس کے ہاتھ میں تھمانی چاہیے، پھر وہ جیسے چاہے اپنی ضروریات پوری کرے، چنانچہ اس بنا پر زکاۃ کی رقم مسکین کو دے دی جائے گی اور پھر وہ خود ہسپتال کے اخراجات ادا کرے۔
لیکن دو صورتیں ایسی ہیں جن میں کوئی بھی تنظیم زکاۃ وصول کر کے فقراء کی جانب سے علاج کے اخراجات ادا کر سکتی ہے۔
1- تنظیم اس وقت علاج کے اخراجات ادا کرے جب یہ اخراجات مریض کے ذمہ قرض بن چکے ہوں، مثلاً: ہسپتال ، اور ڈاکٹر وغیرہ کی فیس، تو ایسی صورت میں یہ مریض مقروض ہے، اور مقروض شخص کا قرضہ براہِ راست قرض خواہ کو ادا کیا جا سکتا ہے، مقروض کے ہاتھ میں تھمانے کی ضرورت نہیں ہے۔
2- تنظیم کی طرف سے علاج کے اخراجات کی ادائیگی مریض کیلئے راحت اور آسانی کا باعث ہو، مثلاً: مریض کے پاس کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مریض کی دیکھ بھال کرے، یا ادویات خرید کر لائے، یا پھر مریض بذاتہ خود خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، تو ایسی صورت میں بھی رفاہی تنظیم ادویات مریض کی جانب سے خرید سکتی ہیں۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (138684) کا جواب دیکھیں اس میں شیخ ابن باز کا فتوی موجود ہے کہ فقراء کیلئے زکاۃ کی رقم سے حاجت کے وقت اشیائے ضرورت خریدی جا سکتی ہیں۔
مندرجہ بالا بیان کے بعد معلوم ہوا کہ مریضوں کے علاج معالجے ، اشیائے ضرورت اور آپریشن کیلئے زکاۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس بات پر اطمینان کر لیا جائے کہ مریض زکاۃ کا مستحق ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی سے سوال پوچھا گیا:
"۔۔۔ کیا کوئی بھی رفاہی تنظیم زکاۃ کی رقم سے معذور ، محتاج افراد اور بچوں کا
علاج معالجہ، دیکھ بھال ، اور ان کی ضروریات پوری کر سکتی ہے؟"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"غریب معذور افراد کیلئے زکاۃ کی رقم استعمال کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة للإفتاء " (9/464)
واللہ اعلم.