الحمد للہ.
مومن كو حسن ظن ركھنا چاہيے اور خير كے پہلو كو غالب ركھے، اور شك و شبہ جس كى كوئى دليل نہ ہو سے اپنے آپ كو دور ركھے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو بہت زيادہ بدگمانى سے اجتناب كرو كيونكہ بعض گمان گناہ ہيں، اور عيب مت ٹٹولو الحجرات ( 12 ).
يہ قرآنى ادب راحت و سعادتمندى اور اطمنان كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ سوء ظن تفتيش اور بحث كى طرف بلكہ بعض اوقات تو جاسوسى كى طرف لے جاتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ پريشانى و تكليف بھى لاتا ہے.
ليكن اگر ايسے امور پائے جائيں جو شك و شبہ كى دعوت ديتے ہوں تو خاوند كو چاہيے كہ وہ ان كى اصلاح كرے اور اس كا علاج كرتے ہوئے ان ابواب كو بند كرنا چاہيے جہاں سے فتنہ و شر آتا ہو.
مثلا اگر بيوى لوگوں كو ٹيلى فون كرتى يا پھر خط و كتابت كرتى ہو يا بغير كسى قابل اطمنان سبب كے گھر سے باہر رہتى ہو تو پھر خاوند كو اسے ايسا كرنے سے روكنے كا حق حاصل ہے.
اور اگر گھر ميں اكيلا ركھنے سے ڈرتا ہو تو پھر وہ اپنے گھر والوں كے قريب يا پھر نيك و صالح پڑوسيوں كے پڑوس ميں رہائش لے كر دے.
گھر كى ٹيلى فون كالوں چيك كرنے كے ليے آلہ بھى لگايا جا سكتا ہے، اس كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13318 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .